ترتیب
پیش لفظ
سخن ہائے گفتنی
کانٹو ں سے بھرے بن میں رستے کی بنا ڈالی
میں سوچتا تھا کہ وہ زخم بھر گیا کہ نہیں
گو نظر اکثر وہ حسن لا زوال آجائے گا
تہ دل میں نہ رہا بام حسیں پر نہ رہا
یہ جام و بادہ ومینا تو سب دلا سے ہیں
رمز یہ کھل جائے تو دنیا میں دل پھر کیا لگے
یہی ہے عشق کہ سردو‘ مگر دہائی نہ دو
دیکھتا ہوں پھول اور کانٹے بہر سو آج بھی
گلستاں میں زخم الفت سے کوئی خالی نہ تھا
پھر آج اپنے گریباں میں غوطہ زن ہو لیں
خشک پتلی سے کوئی صورت نہ ٹھہرائی گئی
دل میں وہ جا بسا رگ جاں کاٹتا ہوا
سیل ماضی کو نشیب جاں میں بھرنے دیجئے
جب کبھی ساز سخن پر سوز دل گاؤں گا میں
کہاں ہوں میں کہ مرا کوئی آشنا بھی نہیں
گئے دنوں کا جو اب سے موازنہ کیجئے
کوئی سوال نہ کوئی جواب دل میں ہے
کتنے دل کش کچھ اندھیرے کچھ اجالے ہوگئے
جب کبھی خود کو یہ سمجھاؤں کو تو میرا نہیں
آؤ پل بھر محو ہو جائیں خیال یار میں
در خزینہء راز کھولتا ہے کوئی
خرد سے دور غم تند خو میں اچھے تھے
سینوں میں تپش ہے کبھی شورش ہے سروں میں
کچھ مہک اس نافہء گم گشتہ کی لاتی تو ہیں
ناحق ہوئے خراب اتر کر خزینے میں
آئیے رولیں کہیں ، رونے سے چین آجائے گا
لب سے دل کا دل سے لب کا رابطہ کوئی نہیں
متحد باہمد گر مانند جسم وجاں رہے
سارا جہان سرد و سیہ یاس کی طرح
گھول جادن بھر کا حاصل اس دل بے تاب میں
گفتگو’’ترک خامشی‘‘ ہے فقط
ہوا جو دل کی طرف کل صبا کا روئے سخن
پیش نظر جو پھر وہی دیوار و در ہوئے
بڑا عجیب سماں آج رات خواب میں تھا
جئیں کچھ اور تو ہو جائے زندگی کچھ اور
کچھ اس ادا سے کوئی ومبدم لبھائے مجھے
رہیں صد گماں بیٹھے ہوئے ہیں
رہی ہے پردۂ الفت میں مصلحت کیا کیا
مدتوں کی خشک پلکوں کو بھگونا چاہئے
اس جہاں کے تو ہے شایاں صرف مرنے کی امنگ
یا تو اس برق تپاں کا سامنا مت کیجئے
سینے میں میرے خلد بر یں کی روش بھی ہے
جانے کس کس کا شریک انجمن یادوں میں ہے
وہ قناعت کا طلسم خواب گوں جاتا رہا
آوارۂ غربت ہوں ٹھکانہ نہیں ملتا
پہلے جہاں کے رنج ومحن میں لگا دیا
بے دلی زوروں پہ تھی گلشن بھی ویرانہ رہا
بات وہ کہتا ہوں جو ہم رنگ خاموشی رہے
سب داغ ہیں بیدار بہت، سینے کے اپنے
تو ہے کہ چیستاں کی عبارت ہے تہ بہ تہ
آدمی دل کے سویدا سے عبارت ہے فقط
یاد ایامے کوئی وجہ پریشانی تو تھی
آدل ناشاد چل اسباب ناشادی سے دور
یہ تو ’’بہنا‘‘ ہے سراسر بے جدال وبے خلاف
کچھ فنا کے زیر پاہوں ‘ کچھ فنا آمادہ ہوں
چار دن کو ہے یہاں شرط اقامت کیا کیا
کڑی ہے دھوپ گھٹا بن کے خود پہ چھاتے جائیں
کہاں چلوں کہ جہاں دل دکھا سکے نہ کوئی
بے خود صفت باد صبا آکے گلے مل
کیا کہیں کیونکر بسر ایام فانی ہوگئے
بزم جہاں میں جب کسی شے کی کمی نہ تھی
وہ دن بھی تھے کہ صورت نام و نگیں تھے ہم
دل میں کسک نہ آنکھ میں آنسو نہ سر میں خاک
یہ کام چشم تصور کا ہے بہ فیض فراق
فضا میں آج بہت دیر یاد آتے رہے
خدا کا نام اس محفل میں کوئی لے تو دل میں لے
تار ٹوٹا تھا مرے ساز کا کچھ اور نہ تھا
تیرے غبار رہ میں دھڑکتا ہے ان کا دل
غم حبیب! شکایت ہے زندگی سے مجھے
اس کو فراق پر مجھے ملنے پہ ضد رہی
ہزار شکر! سر شاخسار پھول کھلا
فصل گل ہے آلبوں پر قص کراے زہر خند
ہنگامۂ زمانہ کی رونق اسی سے ہے
سفر دراز‘ نہ کوئی مکاں‘ نہ کوئی درخت
تمام عمر اکیلے میں تجھ سے باتیں کیں
کون غرقاب ہوا ہے مجھے معلوم نہیں
سحر شب مہ ٹوٹ گیا چاند کا کنگن
سرابوں کے صدف
ترتیب
گزارش احوال
منا جات
نعت
نام ایسا ہے ترا جب بھی زباں پر آئے
نبض ایام ترے کھوج میں چلنا چاہے
مجھ کو پیہم دل کے گہرے سلسلوں پر سوچنا
جسم کی چوکھٹ پہ خم دل کی جبیں کر دی گئی
پلکوں پہ اس دیار کی مٹی اٹھاؤں میں
ابھی لبوں پہ نہیں ہے جو روشنی دل میں
دل کی خلوت سے زباں تک کا سفر کس نے کیا
پھر وہ گم گشتہ حوالے مجھے واپس کر دے
نشان آب تو کیسا ‘ سراب تک نہ دیا
بھریں نہ وقت کے ہاتھوں جراحتیں تیری
بساط وقت پہ صدیوں کے فاصلے ہم لوگ
کوئی زمانہ بھی ہو دکھ یہی ہیں ہونے کے
وہی ہے آنکھ وہی شب ہے خواب بدلا ہے
غم و سرور زمانے پہ کار گر کیا ہے
اپنے باطن کے چمن زار کو رجعت کرجا
بے بسی اس کو کہیں یا کہیں ذوق ایثار
ہوائے بے طرب وفصل بے ثمر گزری
کنج لب و رخسار و دہن بھی ہے بڑی چیز
مسافت کٹ چکی کب کی ، مگر درپیش ہے دل کو
دل پر اثر دو حرف سادہ
دل وقف جراحت ہے مگر رو نہیں سکتے
بن میں جب آئے تو اپنی چاپ سے ڈرتے تھے ہم
مژہ سے اشک ڈھلیں دل میں حسرتیں جاگیں
سراغ عمر رفتہ پا کے روئیں
سب سخن میں بھی نہ سمٹیں گے خزینے دل کے
لوگ کیا بن جائیں باطن کا کہا مانیں اگر
ظاہر میں سر دہر سبک سر بھی رہے ہم
وہ دن ب ایک ایک روش پہ سو سو روشن آنکھیں تھیں
جدا جو تم سے نظر ایک پل ہوئی ہوتی
کچھ یقیں بھی آ چلا وہم و گماں کے ساتھ ساتھ
کون دیکھ پائے گا جو ہر نہاں دل کا
پلٹ کے صبح کا سورج تو روز آئے گا
ہوئے چمن میں مرے ترجماں گلاب کے پھول
احساس کی تہوں میں جو موج قلق چلے
ملتا ہی نہیں درد کا پیکر کوئی مجھ سا
ہر چند انجمن میں ہو ں تنہائیوں میں ہوں
کچھ قطار ایسی ہوئی تو فیر گل
ترک کریں لب کھولنا
کھو گئی دور کہیں بانگ درا ڈھونڈ کے لائیں
نیلے پہاڑ
ایک خواب
پہچان
درختو!
جست
طلوع
آخری فیصلے کا عذاب
سبزے سے سفید میں آنے کا غم
چھٹی کے دن دفتر میں پھول
دھندا چھی ہے
شگوفے
چند لمحے
پابہ گل سر بفلک
دعائے نیم سنگ
دل کو جانے
چل اے دل آسماں پر چل
دل تو اب یہ چاہتا ہے
ڈوبتے سورج کا خود کلامیہ
قرب قیامت
فیصلہ
محاسبہ
ہم زاد
اورئنٹل کالج کے لیے ایک نظم
اکیس اپریل
عبد النبی کو کبؔ
سلیم بے تاب
ایک اچانک موت کا نوحہ
ایک پیدل چلنے والے دوست کا نوحہ
نوحہ
نوحہ
ترتیب
خورشید رضوی کی شاعری
مناجات
نعت
یوں تو وہ شکل کھو گئی گردش ماہ و سال میں
ابروئے ابر سے کرتا ہے اشارہ مجھ کو
اک شاخ سبز اور صبا اور نفس مرا
یہ طرح طرح کے جو خوف ہیں انہیں دور کر
ایک خیال
یہ جو ننگ تھے جو نام تھے مجھے کھا گئے
نم ابر بہار میں چلنا
وہ جو لوگ اہل کمال تھے وہ کہاں گئے
دنیا میں جو اہل دل رہے ہیں
دل پر جو برگ گل بھی لگا وار جالگا
تجسیم
انبار گہر میں کان زر میں
اک معما ہے مری ذات عجیب
گرتے ہوئے بدن کا نگر چھوڑ جاؤں گا
آنکھ کے تل میں رکا ہے کہ تہہ دل میں ہے تو
خاک پر ایک گہری نظر
تا چند بحر غم میں دل زار جائے گا
ہر زہ مت جان مری بادیہ پیمائی کو
دن گزرتے رہے سانسوں میں تھکن آتی رہی
ہے وقت کبھی پتھر ، یارو کبھی دریا ہے
ایک خواہش
سفر شام نے رہ رہ کے ڈرایا مجھ کو
عہد شباب تیرے ساتھ کتنے حجاب اٹھ گئے
یہ مری روح میں گونجتا کون ہے
قفس سے بال و پر طائراں کو دیکھ لیا
مری اصل ذات کا مرکز ہ
عکس نے میرے رلایا ہے مجھے
کچھ پھول تھے کچھ ابر تھا کچھ باد صبا تھی
دشت و کہسار میں پھرتا ہوں علم غم کے لیے
تیری نگاہ لطف بھی ناکام ہی نہ ہو
نا بینائی میں ایک خواب
یہ سوچتا ہوں مرے ماہ وسال کا کیا ہو
دیکھتے رہئے یہاں کیا نہ رہے کیا رہ جائے
سلگتے جنگلوں میں صورت موج ہوا ہوں
بقا کو لرزش رنگ فنا سے پہچانا
سات سمندر پار وطن کی یاد
یادوں کو بام و در میں نظر آئے آئنے
اچانک رخ بدلتی جا رہی ہے
سفر خواب کا عمر بھر کس لئے
حاصل کو آنسوؤں میں ڈبونا بھی ہے ضرور
توازن
کل میں انہی رستوں سے گزر ا تو بہت رویا
دل کا جو معیار تھا کیسا عجب معیار تھا
اب سے پہلے وہ مری ذات پہ طاری تو نہ تھا
کیوں دل زار قدم شوق میں دھرنا کیسا
یاد اتری صفت خامۂ مانی دل پر
پگڈنڈی
دلوں میں بار یقین و گماں اٹھائے ہوئے
پلٹ کر اشک سوئے چشم تر آتا نہیں ہے
ہوا نہ تیری مہک سے کبھی جدا مرا ہاتھ
وہ برگ وہ بار کتنے خوش تھے
تریاق
چپ رہنا بہتر ہے
پھر وہ فضا نہیں ملی اس شب مر مریں کے بعد
دل میں داغ جلے
حوالے جس قدر تھے اب وہ سارے بدلے بدلے ہیں
افغانستان کے لئے ایک نظم
تم کو مری افتاد کا اندازہ نہیں ہے
بنا رہے کوئی دم نقش پا سے کون کہے
دیکھ واعظ کو کہ آزاد گنہ خود بھی نہیں
اترا ہے ترا ہاتھ مرے دل کے سبو پر
یہ شہرت ہے کہ رسوائی مگر حد سے زیادہ ہے
گٹھریاں
رباعیات
امکان
ترتیب
پیش لفظ
حرف سپاس
حمد
مدینہ میں
مدینہ میں
سحر آئینہ کچھ ایسا ہے کہ ڈر پیدا ہو
کچھ بھی تو نہیں حسرت وحیرت کے علاوہ
مئے پنہاں کبھی پیمانے سے باہر بھی دمک
شہر خواب
صبح سے چاک بھی ہو دامن شب ، ضد ہے اسے
خون سے لکھتا ہوں اور لفظ میں ٹھہراتا ہوں
عالم سکر میں جو کہتا ہوں، کہنے دے مجھے
وہی موسم ہے، وہی گل ، وہی خوں ریز ہوا
گل کھلاتی ہے، کبھی خاک اڑاتی ہے یہ خاک
شیشے کی دیوار
زمیں کا رزق ہے یاسوئے آسماں گئی ہے
ہوا کے زور پہ چلنا بھی چاہیے کچھ کچھ
کہیں بھی مقام صدائے لب نہیں آسکا
حیراں ہوں میں کیونکر سفر خاک سے گزرا
تہ دل
جذبے کی کوئی شکل بنانی ہی پڑے گی
بپا دل میں پیہم یہ ماتم رہا
بادل سر آسماں رواں ہے
جزیرہ
سماں غروب کا دل میں رہا ابھر تے ہوئے
حیران ہیں اہل دل خدایا
صرف خزاں ہیں کس کے رنگ
زہر اب ہوں میں یا قند ہوں میں
دل کو پیہم وہی اندوہ شماری کرنا
ہوک
فرصت ہی نہ تھی نغمۂ تار رگ جاں سے
اے درد نہاں مار ہی ڈالا مجھے آخر
میں ہوں خود سے بھی خفا، مجھ کو لبھائے نہ کوئی
حسرت ہے نظر کو کہ نظر آئیں پرندے
جھیل گیا تمام زور، یورش ماہ وسال کا
وہی بہار وہی شغل باد پیمائی
وقت ہجرت کا ہے ہجرت کی زمیں نا معلوم
انقلاب
سالگرہ
ماضی کو بھی دیکھیں گے اب اپنی ہی نظر سے
خیالات لفظوں میں ڈھالے بہت
کہیں شطر نج کے خانے ستارے
ہم اس دشت سے کیو گزارے گئے
پیڑ ہلے کس لئے
کام بڑے رہ گئے
نہ موج باد صبا گل کھلانے آئے گی
پوشیدہ ہے تہو میں پھرتی ہے ساحلوں میں
دل سمجھتا ہے
غوّاص
جب یاد کے سائے میں سستائے فراموشی
وہ مجھے خاک سے باہر نہیں جانے دیتے
جب پاؤں صبا بہر تگ و تاز نکالے
ہمیں رکھتی ہے یوں قید مقام آزردہ
گھر بھی جھکے جھکے سے ہیں در بھی جھکے جھکے
مجھ سے محروم رہا میرازمانہ خورشید
خوف زیاں کے واسطے، خواہش سود کے لئے
جانے کیا ہے
ناتمام
زندگی کٹتی چلی جاتی ہے ، اس کا نہیں رنج
تونے کبھی سوچا ہے کہ وہ کون ہے جس نے
بھلانا بہت دور کی بات ہے
ان پرندوں کو نشیمن سے بھلا کیا لینا
یہ اپنا ذوق ہے اور اپنی اپنی فطرت ہے
دعا یہ ہے کہ تنو مند ہو شجر میرا
سوچو تو ہیں فقیر کو آزاد یاں بہت
بھرم اسی میں تحمل کا ہے کہ مر جائیں
اے گردش دہر، اب تو خوش ہو
زندگی کا یہی ہے رنگ تو پھر
جو شعلۂ تصویر سے جل جائے وہ دامن
جیسی شوریدہ سری مجھ میں رہی ہے اک عمر
ترتیب
پیش لفظ
سخن ہائے گفتنی
کانٹو ں سے بھرے بن میں رستے کی بنا ڈالی
میں سوچتا تھا کہ وہ زخم بھر گیا کہ نہیں
گو نظر اکثر وہ حسن لا زوال آجائے گا
تہ دل میں نہ رہا بام حسیں پر نہ رہا
یہ جام و بادہ ومینا تو سب دلا سے ہیں
رمز یہ کھل جائے تو دنیا میں دل پھر کیا لگے
یہی ہے عشق کہ سردو‘ مگر دہائی نہ دو
دیکھتا ہوں پھول اور کانٹے بہر سو آج بھی
گلستاں میں زخم الفت سے کوئی خالی نہ تھا
پھر آج اپنے گریباں میں غوطہ زن ہو لیں
خشک پتلی سے کوئی صورت نہ ٹھہرائی گئی
دل میں وہ جا بسا رگ جاں کاٹتا ہوا
سیل ماضی کو نشیب جاں میں بھرنے دیجئے
جب کبھی ساز سخن پر سوز دل گاؤں گا میں
کہاں ہوں میں کہ مرا کوئی آشنا بھی نہیں
گئے دنوں کا جو اب سے موازنہ کیجئے
کوئی سوال نہ کوئی جواب دل میں ہے
کتنے دل کش کچھ اندھیرے کچھ اجالے ہوگئے
جب کبھی خود کو یہ سمجھاؤں کو تو میرا نہیں
آؤ پل بھر محو ہو جائیں خیال یار میں
در خزینہء راز کھولتا ہے کوئی
خرد سے دور غم تند خو میں اچھے تھے
سینوں میں تپش ہے کبھی شورش ہے سروں میں
کچھ مہک اس نافہء گم گشتہ کی لاتی تو ہیں
ناحق ہوئے خراب اتر کر خزینے میں
آئیے رولیں کہیں ، رونے سے چین آجائے گا
لب سے دل کا دل سے لب کا رابطہ کوئی نہیں
متحد باہمد گر مانند جسم وجاں رہے
سارا جہان سرد و سیہ یاس کی طرح
گھول جادن بھر کا حاصل اس دل بے تاب میں
گفتگو’’ترک خامشی‘‘ ہے فقط
ہوا جو دل کی طرف کل صبا کا روئے سخن
پیش نظر جو پھر وہی دیوار و در ہوئے
بڑا عجیب سماں آج رات خواب میں تھا
جئیں کچھ اور تو ہو جائے زندگی کچھ اور
کچھ اس ادا سے کوئی ومبدم لبھائے مجھے
رہیں صد گماں بیٹھے ہوئے ہیں
رہی ہے پردۂ الفت میں مصلحت کیا کیا
مدتوں کی خشک پلکوں کو بھگونا چاہئے
اس جہاں کے تو ہے شایاں صرف مرنے کی امنگ
یا تو اس برق تپاں کا سامنا مت کیجئے
سینے میں میرے خلد بر یں کی روش بھی ہے
جانے کس کس کا شریک انجمن یادوں میں ہے
وہ قناعت کا طلسم خواب گوں جاتا رہا
آوارۂ غربت ہوں ٹھکانہ نہیں ملتا
پہلے جہاں کے رنج ومحن میں لگا دیا
بے دلی زوروں پہ تھی گلشن بھی ویرانہ رہا
بات وہ کہتا ہوں جو ہم رنگ خاموشی رہے
سب داغ ہیں بیدار بہت، سینے کے اپنے
تو ہے کہ چیستاں کی عبارت ہے تہ بہ تہ
آدمی دل کے سویدا سے عبارت ہے فقط
یاد ایامے کوئی وجہ پریشانی تو تھی
آدل ناشاد چل اسباب ناشادی سے دور
یہ تو ’’بہنا‘‘ ہے سراسر بے جدال وبے خلاف
کچھ فنا کے زیر پاہوں ‘ کچھ فنا آمادہ ہوں
چار دن کو ہے یہاں شرط اقامت کیا کیا
کڑی ہے دھوپ گھٹا بن کے خود پہ چھاتے جائیں
کہاں چلوں کہ جہاں دل دکھا سکے نہ کوئی
بے خود صفت باد صبا آکے گلے مل
کیا کہیں کیونکر بسر ایام فانی ہوگئے
بزم جہاں میں جب کسی شے کی کمی نہ تھی
وہ دن بھی تھے کہ صورت نام و نگیں تھے ہم
دل میں کسک نہ آنکھ میں آنسو نہ سر میں خاک
یہ کام چشم تصور کا ہے بہ فیض فراق
فضا میں آج بہت دیر یاد آتے رہے
خدا کا نام اس محفل میں کوئی لے تو دل میں لے
تار ٹوٹا تھا مرے ساز کا کچھ اور نہ تھا
تیرے غبار رہ میں دھڑکتا ہے ان کا دل
غم حبیب! شکایت ہے زندگی سے مجھے
اس کو فراق پر مجھے ملنے پہ ضد رہی
ہزار شکر! سر شاخسار پھول کھلا
فصل گل ہے آلبوں پر قص کراے زہر خند
ہنگامۂ زمانہ کی رونق اسی سے ہے
سفر دراز‘ نہ کوئی مکاں‘ نہ کوئی درخت
تمام عمر اکیلے میں تجھ سے باتیں کیں
کون غرقاب ہوا ہے مجھے معلوم نہیں
سحر شب مہ ٹوٹ گیا چاند کا کنگن
سرابوں کے صدف
ترتیب
گزارش احوال
منا جات
نعت
نام ایسا ہے ترا جب بھی زباں پر آئے
نبض ایام ترے کھوج میں چلنا چاہے
مجھ کو پیہم دل کے گہرے سلسلوں پر سوچنا
جسم کی چوکھٹ پہ خم دل کی جبیں کر دی گئی
پلکوں پہ اس دیار کی مٹی اٹھاؤں میں
ابھی لبوں پہ نہیں ہے جو روشنی دل میں
دل کی خلوت سے زباں تک کا سفر کس نے کیا
پھر وہ گم گشتہ حوالے مجھے واپس کر دے
نشان آب تو کیسا ‘ سراب تک نہ دیا
بھریں نہ وقت کے ہاتھوں جراحتیں تیری
بساط وقت پہ صدیوں کے فاصلے ہم لوگ
کوئی زمانہ بھی ہو دکھ یہی ہیں ہونے کے
وہی ہے آنکھ وہی شب ہے خواب بدلا ہے
غم و سرور زمانے پہ کار گر کیا ہے
اپنے باطن کے چمن زار کو رجعت کرجا
بے بسی اس کو کہیں یا کہیں ذوق ایثار
ہوائے بے طرب وفصل بے ثمر گزری
کنج لب و رخسار و دہن بھی ہے بڑی چیز
مسافت کٹ چکی کب کی ، مگر درپیش ہے دل کو
دل پر اثر دو حرف سادہ
دل وقف جراحت ہے مگر رو نہیں سکتے
بن میں جب آئے تو اپنی چاپ سے ڈرتے تھے ہم
مژہ سے اشک ڈھلیں دل میں حسرتیں جاگیں
سراغ عمر رفتہ پا کے روئیں
سب سخن میں بھی نہ سمٹیں گے خزینے دل کے
لوگ کیا بن جائیں باطن کا کہا مانیں اگر
ظاہر میں سر دہر سبک سر بھی رہے ہم
وہ دن ب ایک ایک روش پہ سو سو روشن آنکھیں تھیں
جدا جو تم سے نظر ایک پل ہوئی ہوتی
کچھ یقیں بھی آ چلا وہم و گماں کے ساتھ ساتھ
کون دیکھ پائے گا جو ہر نہاں دل کا
پلٹ کے صبح کا سورج تو روز آئے گا
ہوئے چمن میں مرے ترجماں گلاب کے پھول
احساس کی تہوں میں جو موج قلق چلے
ملتا ہی نہیں درد کا پیکر کوئی مجھ سا
ہر چند انجمن میں ہو ں تنہائیوں میں ہوں
کچھ قطار ایسی ہوئی تو فیر گل
ترک کریں لب کھولنا
کھو گئی دور کہیں بانگ درا ڈھونڈ کے لائیں
نیلے پہاڑ
ایک خواب
پہچان
درختو!
جست
طلوع
آخری فیصلے کا عذاب
سبزے سے سفید میں آنے کا غم
چھٹی کے دن دفتر میں پھول
دھندا چھی ہے
شگوفے
چند لمحے
پابہ گل سر بفلک
دعائے نیم سنگ
دل کو جانے
چل اے دل آسماں پر چل
دل تو اب یہ چاہتا ہے
ڈوبتے سورج کا خود کلامیہ
قرب قیامت
فیصلہ
محاسبہ
ہم زاد
اورئنٹل کالج کے لیے ایک نظم
اکیس اپریل
عبد النبی کو کبؔ
سلیم بے تاب
ایک اچانک موت کا نوحہ
ایک پیدل چلنے والے دوست کا نوحہ
نوحہ
نوحہ
ترتیب
خورشید رضوی کی شاعری
مناجات
نعت
یوں تو وہ شکل کھو گئی گردش ماہ و سال میں
ابروئے ابر سے کرتا ہے اشارہ مجھ کو
اک شاخ سبز اور صبا اور نفس مرا
یہ طرح طرح کے جو خوف ہیں انہیں دور کر
ایک خیال
یہ جو ننگ تھے جو نام تھے مجھے کھا گئے
نم ابر بہار میں چلنا
وہ جو لوگ اہل کمال تھے وہ کہاں گئے
دنیا میں جو اہل دل رہے ہیں
دل پر جو برگ گل بھی لگا وار جالگا
تجسیم
انبار گہر میں کان زر میں
اک معما ہے مری ذات عجیب
گرتے ہوئے بدن کا نگر چھوڑ جاؤں گا
آنکھ کے تل میں رکا ہے کہ تہہ دل میں ہے تو
خاک پر ایک گہری نظر
تا چند بحر غم میں دل زار جائے گا
ہر زہ مت جان مری بادیہ پیمائی کو
دن گزرتے رہے سانسوں میں تھکن آتی رہی
ہے وقت کبھی پتھر ، یارو کبھی دریا ہے
ایک خواہش
سفر شام نے رہ رہ کے ڈرایا مجھ کو
عہد شباب تیرے ساتھ کتنے حجاب اٹھ گئے
یہ مری روح میں گونجتا کون ہے
قفس سے بال و پر طائراں کو دیکھ لیا
مری اصل ذات کا مرکز ہ
عکس نے میرے رلایا ہے مجھے
کچھ پھول تھے کچھ ابر تھا کچھ باد صبا تھی
دشت و کہسار میں پھرتا ہوں علم غم کے لیے
تیری نگاہ لطف بھی ناکام ہی نہ ہو
نا بینائی میں ایک خواب
یہ سوچتا ہوں مرے ماہ وسال کا کیا ہو
دیکھتے رہئے یہاں کیا نہ رہے کیا رہ جائے
سلگتے جنگلوں میں صورت موج ہوا ہوں
بقا کو لرزش رنگ فنا سے پہچانا
سات سمندر پار وطن کی یاد
یادوں کو بام و در میں نظر آئے آئنے
اچانک رخ بدلتی جا رہی ہے
سفر خواب کا عمر بھر کس لئے
حاصل کو آنسوؤں میں ڈبونا بھی ہے ضرور
توازن
کل میں انہی رستوں سے گزر ا تو بہت رویا
دل کا جو معیار تھا کیسا عجب معیار تھا
اب سے پہلے وہ مری ذات پہ طاری تو نہ تھا
کیوں دل زار قدم شوق میں دھرنا کیسا
یاد اتری صفت خامۂ مانی دل پر
پگڈنڈی
دلوں میں بار یقین و گماں اٹھائے ہوئے
پلٹ کر اشک سوئے چشم تر آتا نہیں ہے
ہوا نہ تیری مہک سے کبھی جدا مرا ہاتھ
وہ برگ وہ بار کتنے خوش تھے
تریاق
چپ رہنا بہتر ہے
پھر وہ فضا نہیں ملی اس شب مر مریں کے بعد
دل میں داغ جلے
حوالے جس قدر تھے اب وہ سارے بدلے بدلے ہیں
افغانستان کے لئے ایک نظم
تم کو مری افتاد کا اندازہ نہیں ہے
بنا رہے کوئی دم نقش پا سے کون کہے
دیکھ واعظ کو کہ آزاد گنہ خود بھی نہیں
اترا ہے ترا ہاتھ مرے دل کے سبو پر
یہ شہرت ہے کہ رسوائی مگر حد سے زیادہ ہے
گٹھریاں
رباعیات
امکان
ترتیب
پیش لفظ
حرف سپاس
حمد
مدینہ میں
مدینہ میں
سحر آئینہ کچھ ایسا ہے کہ ڈر پیدا ہو
کچھ بھی تو نہیں حسرت وحیرت کے علاوہ
مئے پنہاں کبھی پیمانے سے باہر بھی دمک
شہر خواب
صبح سے چاک بھی ہو دامن شب ، ضد ہے اسے
خون سے لکھتا ہوں اور لفظ میں ٹھہراتا ہوں
عالم سکر میں جو کہتا ہوں، کہنے دے مجھے
وہی موسم ہے، وہی گل ، وہی خوں ریز ہوا
گل کھلاتی ہے، کبھی خاک اڑاتی ہے یہ خاک
شیشے کی دیوار
زمیں کا رزق ہے یاسوئے آسماں گئی ہے
ہوا کے زور پہ چلنا بھی چاہیے کچھ کچھ
کہیں بھی مقام صدائے لب نہیں آسکا
حیراں ہوں میں کیونکر سفر خاک سے گزرا
تہ دل
جذبے کی کوئی شکل بنانی ہی پڑے گی
بپا دل میں پیہم یہ ماتم رہا
بادل سر آسماں رواں ہے
جزیرہ
سماں غروب کا دل میں رہا ابھر تے ہوئے
حیران ہیں اہل دل خدایا
صرف خزاں ہیں کس کے رنگ
زہر اب ہوں میں یا قند ہوں میں
دل کو پیہم وہی اندوہ شماری کرنا
ہوک
فرصت ہی نہ تھی نغمۂ تار رگ جاں سے
اے درد نہاں مار ہی ڈالا مجھے آخر
میں ہوں خود سے بھی خفا، مجھ کو لبھائے نہ کوئی
حسرت ہے نظر کو کہ نظر آئیں پرندے
جھیل گیا تمام زور، یورش ماہ وسال کا
وہی بہار وہی شغل باد پیمائی
وقت ہجرت کا ہے ہجرت کی زمیں نا معلوم
انقلاب
سالگرہ
ماضی کو بھی دیکھیں گے اب اپنی ہی نظر سے
خیالات لفظوں میں ڈھالے بہت
کہیں شطر نج کے خانے ستارے
ہم اس دشت سے کیو گزارے گئے
پیڑ ہلے کس لئے
کام بڑے رہ گئے
نہ موج باد صبا گل کھلانے آئے گی
پوشیدہ ہے تہو میں پھرتی ہے ساحلوں میں
دل سمجھتا ہے
غوّاص
جب یاد کے سائے میں سستائے فراموشی
وہ مجھے خاک سے باہر نہیں جانے دیتے
جب پاؤں صبا بہر تگ و تاز نکالے
ہمیں رکھتی ہے یوں قید مقام آزردہ
گھر بھی جھکے جھکے سے ہیں در بھی جھکے جھکے
مجھ سے محروم رہا میرازمانہ خورشید
خوف زیاں کے واسطے، خواہش سود کے لئے
جانے کیا ہے
ناتمام
زندگی کٹتی چلی جاتی ہے ، اس کا نہیں رنج
تونے کبھی سوچا ہے کہ وہ کون ہے جس نے
بھلانا بہت دور کی بات ہے
ان پرندوں کو نشیمن سے بھلا کیا لینا
یہ اپنا ذوق ہے اور اپنی اپنی فطرت ہے
دعا یہ ہے کہ تنو مند ہو شجر میرا
سوچو تو ہیں فقیر کو آزاد یاں بہت
بھرم اسی میں تحمل کا ہے کہ مر جائیں
اے گردش دہر، اب تو خوش ہو
زندگی کا یہی ہے رنگ تو پھر
جو شعلۂ تصویر سے جل جائے وہ دامن
جیسی شوریدہ سری مجھ میں رہی ہے اک عمر
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।