حرف آغاز
جو یائے علم ذات ہوں استاد کر مجھے
یہ شوق سیر دشت ہے پابند سانس کا
مجھےیہ نفس لوّامہ ہمیشہ تنگ کرتا ہے
ہر برہمن بت ہر اک مسلم خدا لے جائیگا
جسے میں ذات سے باہر تلاش کرتا رہا
مجھے جب موت نے بویا زمیں میں
خاک میں جب خیال پیدا ہوا
محنت زیست کا صلہ ہے موت
حقیقتوں کی خبر ہے، مجاز ڈھونڈنا ہے
میںایک نیند سے جاگا پئے بقائے دوام
لمحہ مری گرفت میں آیا نکل گیا
نگار خانۂ دل میں نہ پال جاہ جلال
وجود واہمہ ہے اور آئینہ ہے جنوں
میںن کاسۂ سر بولتا ہے
ذہن اشکال کو زنجیر نہیں کر پایا
اسے مرے دھیان ہی نے زندہ رکھا ہوا ہے
نہ پاگل جانیے مجھ سر پھرے کو
جہان میں اختیار پالینا چاہتا ہوں
نفی کے جبر سے ازاد اور ثبات سے دور
اس خودی کے بیرئیر کو توڑنا ہے
مری طرف جو یہ جھونکے صبا کے آتے ہیں
گردش دشت تمنا سے ملا کچھ بھی نہیں
ہمیں کبھی تو بدلنا تھا پیر ہن اپنا
چمن سے جانب صحرا گئی نظر میری
شب رفتہ زبانی خامشی کی
آؤ تمہیں بتلائیں کیسے خواب ہمارا بنتا ہے
کوئی خواب تھا کہ مثال خواب گزر گیا
یہ خواب اگر خواب سے باہر نظر آتا
چلن ریگ رواں کا چشم بینا تک نہیں آیا
جب پنجۂ ملال سے باہر نکل گیا
سب اس نگر میں بسنے کی خواہش میں تھے مگر
وہ کہتے ہی ںکہ تھا کچھ بھی نہیں تھا
مکان ہی نہ بنائے گئے زمیں کم تھی
مرے خوابوں میں تصویروں کا اک میلہ لگا دے گا
خون کے اندر مچلتی خواہشوں پر زور کیا
وہ جو نہی بام تک گیا ہو گا
ہمارے واسطے کتنی بلائیں ساتھ لایا ہے
قدموں پہ مخالف نے جو دستار گرا دی
کئی صحرا میں مخفی ظاہر صحراؤں کے نیچے
یہاں ہر شخص اپنے گھر سے کم باہر نکلتا ہے
پر سکوں یہ ستم ایجاد نہ ہونے دے گا
کرم نے گو ترے کیکر سے برگد کر دیا مجھ کو
اگرچہ جاننے والوں کے ساتھ چلتے ہیں
کچھ ایسی پڑگئی ہے لت ہوا کی
میں اپنی گھات اسکی گھات سے پہلے لگاؤں گا
میس بے بس تھا مرا محور نہیں تھا
وہ ہے بے ابر صحرا اس کو سر کیے کیا جائیے
رگ جاں می ٹھہر نے کی اجازت بھی نہیں دیتا
ہوا کا آگ میں تبدیل ہو جانا بھی ممکن ہے
لکھے گئے ہیں مرے واسطے عذِاب عجیب
بنا کے تونے مجھے نارسا بنایا ہے
وہ میرے ساتھ ہے لیکن مجھے وہ جانتا کب ہے
کوئی صورت بھی انجانی نہیں ہے
مرا سفر نہ کٹے گا کبھی کہ سال نیا
صحرا میں تشنگی کا کوئی حل ملے مجھے
زمیں سے اٹھا ہوں یا آسماں سے آیا ہوں
رہ عشق گرچہ کڑی بھی ہے
ازل سے ہوں جستجو میں اب تو صلہ دے مجھ کو
ذرا سی دیر کو چولا بدل کے دیکھتا ہوں
مرے وجود کے باہر بھی اک زمانہ ہے
یہی جنون ہمیشہ مرے لہو میں رہا
ہر اس موت کا قصہ غم حیات کی بات
زقند اس کی طرف بھرنے سے پہلے
پکڑ کر آسمانوں کو زمیں پر دھر بھی سکتا ہوں
ترا سنسار تیاگے جارہا ہوں
کیا خبر تھی اس قدر مجبور کر دے گا مجھے
رکاوٹ بن گیا سودائے سر کیا؟
کبھی جو موج میں بے اختیار دیکھتا ہوں
یہ سفر ہے لا مکانوں سے مکانوں کی طرف
راستے اپنے بدل کر تو کہاں تک جائے گا
وجود ان کے ہیں سینوں میں دل ہمارے ہیں
وہ مقید جو میری کھال میں ہے
بڑی تاثیر ہے دست قضا میں
کیف ومستی کا اشارہ آپ کی آنکھوں میں ہے
مرے کہے کا مجھے اعتبار کوئی نہیں
زمییں گھومتی ہیں راستہ تبدیل ہوتا ہے
آسماں سے تپش، سراب سے پیاس
کسی خود آشنا کو جس گھڑی مرتے ہوئے دیکھا
مری ضد گرچہ میری ذات میں ہے
وہ چشم تماشا کہ ہنرور ہی نہیں ہے
عالم ہوش میں باہوش اکیلا میں تھا
جب بھی کیا ہے قصد پروں نے اڑان کا
وہ میرا جان خواب دکھائے ہزار خواب
مری طرح کے تراشے کئی صنم تم نے
رنج و الم اسائش دھوکہ
یہ دور نہیں نابینوں کا اب ہاتھ میں آنکھیں ہوتی ہیں
ہر ایک زمانے کے اندر اک اور زمانہ ہوتا ہے
زندگی رقص میں تھی مجھ پہ ہی طاری تھا جمود
تصویر میں سانسوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
اک مسلسل حصار دود میں قید
متفق ہو کے تیری بات کے ساتھ
وہ لوگ جو کہ مشرف بہ شر نہیں ہوتے
میں اپنے آپ کو اپنی نظامت کے لیے چنتا
اے مرے علم بتا کون ہوں میں
کہا چلو، ساز ورخت اڑنے لگے ہوا میں
کیسے تسخیر کرے یاس مجھے
دیکھ ہر آدمی کو بد نہ سمجھ
باہر میں جونہی حلقۂ ادراک سے نکلا
حرکت و محور اجسام خفیفہ کیا ہے
ہے یہ ہنگامۂ اثبات و نفی لایعنی
یہ خاک جنا پھر سے اگر خاک نہ ہوگا
جب موج میں آکر کھلتا ہے اک باب ہمارے خوابوں کا
کس اہتمام سے پہلے زمیں بنائی گئی
ہماری آنکھ سے جو آسماں نکلتے ہیں
اب ایسی عمر میں آکر یہ بل گیا تو کیا
زمین زاد سوئے آسماں گئے تو گئے
ملنگ جانب شہر صبا روانہ ہوا
میں ہوں صحرائی یہی زاد لایا ہوں میں
حرف آغاز
جو یائے علم ذات ہوں استاد کر مجھے
یہ شوق سیر دشت ہے پابند سانس کا
مجھےیہ نفس لوّامہ ہمیشہ تنگ کرتا ہے
ہر برہمن بت ہر اک مسلم خدا لے جائیگا
جسے میں ذات سے باہر تلاش کرتا رہا
مجھے جب موت نے بویا زمیں میں
خاک میں جب خیال پیدا ہوا
محنت زیست کا صلہ ہے موت
حقیقتوں کی خبر ہے، مجاز ڈھونڈنا ہے
میںایک نیند سے جاگا پئے بقائے دوام
لمحہ مری گرفت میں آیا نکل گیا
نگار خانۂ دل میں نہ پال جاہ جلال
وجود واہمہ ہے اور آئینہ ہے جنوں
میںن کاسۂ سر بولتا ہے
ذہن اشکال کو زنجیر نہیں کر پایا
اسے مرے دھیان ہی نے زندہ رکھا ہوا ہے
نہ پاگل جانیے مجھ سر پھرے کو
جہان میں اختیار پالینا چاہتا ہوں
نفی کے جبر سے ازاد اور ثبات سے دور
اس خودی کے بیرئیر کو توڑنا ہے
مری طرف جو یہ جھونکے صبا کے آتے ہیں
گردش دشت تمنا سے ملا کچھ بھی نہیں
ہمیں کبھی تو بدلنا تھا پیر ہن اپنا
چمن سے جانب صحرا گئی نظر میری
شب رفتہ زبانی خامشی کی
آؤ تمہیں بتلائیں کیسے خواب ہمارا بنتا ہے
کوئی خواب تھا کہ مثال خواب گزر گیا
یہ خواب اگر خواب سے باہر نظر آتا
چلن ریگ رواں کا چشم بینا تک نہیں آیا
جب پنجۂ ملال سے باہر نکل گیا
سب اس نگر میں بسنے کی خواہش میں تھے مگر
وہ کہتے ہی ںکہ تھا کچھ بھی نہیں تھا
مکان ہی نہ بنائے گئے زمیں کم تھی
مرے خوابوں میں تصویروں کا اک میلہ لگا دے گا
خون کے اندر مچلتی خواہشوں پر زور کیا
وہ جو نہی بام تک گیا ہو گا
ہمارے واسطے کتنی بلائیں ساتھ لایا ہے
قدموں پہ مخالف نے جو دستار گرا دی
کئی صحرا میں مخفی ظاہر صحراؤں کے نیچے
یہاں ہر شخص اپنے گھر سے کم باہر نکلتا ہے
پر سکوں یہ ستم ایجاد نہ ہونے دے گا
کرم نے گو ترے کیکر سے برگد کر دیا مجھ کو
اگرچہ جاننے والوں کے ساتھ چلتے ہیں
کچھ ایسی پڑگئی ہے لت ہوا کی
میں اپنی گھات اسکی گھات سے پہلے لگاؤں گا
میس بے بس تھا مرا محور نہیں تھا
وہ ہے بے ابر صحرا اس کو سر کیے کیا جائیے
رگ جاں می ٹھہر نے کی اجازت بھی نہیں دیتا
ہوا کا آگ میں تبدیل ہو جانا بھی ممکن ہے
لکھے گئے ہیں مرے واسطے عذِاب عجیب
بنا کے تونے مجھے نارسا بنایا ہے
وہ میرے ساتھ ہے لیکن مجھے وہ جانتا کب ہے
کوئی صورت بھی انجانی نہیں ہے
مرا سفر نہ کٹے گا کبھی کہ سال نیا
صحرا میں تشنگی کا کوئی حل ملے مجھے
زمیں سے اٹھا ہوں یا آسماں سے آیا ہوں
رہ عشق گرچہ کڑی بھی ہے
ازل سے ہوں جستجو میں اب تو صلہ دے مجھ کو
ذرا سی دیر کو چولا بدل کے دیکھتا ہوں
مرے وجود کے باہر بھی اک زمانہ ہے
یہی جنون ہمیشہ مرے لہو میں رہا
ہر اس موت کا قصہ غم حیات کی بات
زقند اس کی طرف بھرنے سے پہلے
پکڑ کر آسمانوں کو زمیں پر دھر بھی سکتا ہوں
ترا سنسار تیاگے جارہا ہوں
کیا خبر تھی اس قدر مجبور کر دے گا مجھے
رکاوٹ بن گیا سودائے سر کیا؟
کبھی جو موج میں بے اختیار دیکھتا ہوں
یہ سفر ہے لا مکانوں سے مکانوں کی طرف
راستے اپنے بدل کر تو کہاں تک جائے گا
وجود ان کے ہیں سینوں میں دل ہمارے ہیں
وہ مقید جو میری کھال میں ہے
بڑی تاثیر ہے دست قضا میں
کیف ومستی کا اشارہ آپ کی آنکھوں میں ہے
مرے کہے کا مجھے اعتبار کوئی نہیں
زمییں گھومتی ہیں راستہ تبدیل ہوتا ہے
آسماں سے تپش، سراب سے پیاس
کسی خود آشنا کو جس گھڑی مرتے ہوئے دیکھا
مری ضد گرچہ میری ذات میں ہے
وہ چشم تماشا کہ ہنرور ہی نہیں ہے
عالم ہوش میں باہوش اکیلا میں تھا
جب بھی کیا ہے قصد پروں نے اڑان کا
وہ میرا جان خواب دکھائے ہزار خواب
مری طرح کے تراشے کئی صنم تم نے
رنج و الم اسائش دھوکہ
یہ دور نہیں نابینوں کا اب ہاتھ میں آنکھیں ہوتی ہیں
ہر ایک زمانے کے اندر اک اور زمانہ ہوتا ہے
زندگی رقص میں تھی مجھ پہ ہی طاری تھا جمود
تصویر میں سانسوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
اک مسلسل حصار دود میں قید
متفق ہو کے تیری بات کے ساتھ
وہ لوگ جو کہ مشرف بہ شر نہیں ہوتے
میں اپنے آپ کو اپنی نظامت کے لیے چنتا
اے مرے علم بتا کون ہوں میں
کہا چلو، ساز ورخت اڑنے لگے ہوا میں
کیسے تسخیر کرے یاس مجھے
دیکھ ہر آدمی کو بد نہ سمجھ
باہر میں جونہی حلقۂ ادراک سے نکلا
حرکت و محور اجسام خفیفہ کیا ہے
ہے یہ ہنگامۂ اثبات و نفی لایعنی
یہ خاک جنا پھر سے اگر خاک نہ ہوگا
جب موج میں آکر کھلتا ہے اک باب ہمارے خوابوں کا
کس اہتمام سے پہلے زمیں بنائی گئی
ہماری آنکھ سے جو آسماں نکلتے ہیں
اب ایسی عمر میں آکر یہ بل گیا تو کیا
زمین زاد سوئے آسماں گئے تو گئے
ملنگ جانب شہر صبا روانہ ہوا
میں ہوں صحرائی یہی زاد لایا ہوں میں
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.