سر ورق
شاد رہو، آباد رہو
فہرست
کسی تخلیق کے پیکر میں آنا چاہتا ہوں
مجھ کو تو کچھ خبر ہی نہیں کیا ہوا مجھے
سزائیں جتنی ملی ہیں اس ایک بھول کی ہیں
ان بھٹکتے بادلوں کا اور مت پیچھاکرو
نہ چشمِ تر بتاتی ہے، نہ زخمِ سر بتاتے ہیں
مرے نصیب نے پاکر شکستہ پر مجھ کو
اگر بے سمت ہو منزل مسافت بے کراں ٹھہرے
وحشتیں بھی کتنی ہیں آگہی کے پیکر میں
اور یوں مرے عروج پہ پہنچا دیا مجھے
سحر کو شب بناتی جارہی ہے
اتنا تو یاد ہے کہ تہہ آب لے گیا
ہر اک موسم کا خوگر ہوگیا ہوں
اگر ہر راستہ میرے لئے آسان ہو جاتا
اب ہمیں ہونے لگا اس بھول کا احساس بھی
وہ اس کی بے زبانی بھی عجب انداز کی ہوگی
آج رستے میں ملا تھا کوئی انجانا مجھے
یہ حسرت تھی کہ ہم اس میں کوئی چہرہ نیا دیکھیں
اک رات خود کو یوں بھی جگا کر تو دیکھتے
سوا تیرے تو چاہا کچھ نہیں تھا
تجھ سے بچھڑ کے غم کی شدت سمجھ رہا ہوں
اگر ذرا بھی ہمارا خیال کرتے ہو
کسی پر کیوں کوئی الزام رکھیں
پرانے داغ زخموں کے بھلا کب دل سے جاتے ہیں
وہ بارشیں ہیں کہ جائیں تو ہم کدھر جائیں
کوئی سوال نہ کر اور کوئی جواب نہ پوچھ
مری فریاد سنتے ہیں مگر خاموش رہتے ہیں
بر سرِ پیکار کس سے ہوں، مقابل کون ہے؟
نذر اقبال
اس الجھی ڈور کا کوئی سرا بھی نکلے گا
اب بکھرتا لگ رہا ہے دل کا شیرازہ مجھے
ابر بن جاؤں کہیں پیڑ کا سایہ ہو جاؤں
انتہا شاید یہی تو ہے ہر اس ویاس کی
چھپ کر کبھی ہوئیں کبھی کھل کر مرے خلاف
دیکھ کر بھی اپنی موجوں کا تماشا چپ رہا
تنہائیوں سے اپنی ہم آغوش ہو گئے
رتبے کو مرے خاک کا ہمسر سمجھ لیا
اسی حسرت میں میں نے کر لیا خوناب آنکھوں کو
اگر یوں آئینے کے رو بہ رو ہونا پڑے تجھ کو
کسی نے ایسے کیا مجھ پہ آشکار مجھے
اس قدر گردشِ حالات گراں گزری ہے
حسرتوں کا مآل دیکھا ہے
سنامی
سانسوں میں لے کے اتنی خوشبو کہاں سے آیا؟
کئی نا آشنا چہرے حجابوں سے نکل آئے
کچھ پتا نہیں چلتا، کچھ خبر نہیں ہوتی
پہلے تو دانستہ ٹھوکر کھاتے ہو
مانا تم سے کم اچھے ہیں
اور کیا کرتے مقدر کے حوالے کر دیا
یہ مجھ میں اور مرے بیچ میں حائل کیا ہے
تنہائیوں میں میرے سوا دوسرا ہے کون؟
بس ایک پل کو مجھے دستیاب ہو جاتاہے
اندھیروں میں بھٹکنا ہے، پریشانی میں رہنا ہے
دھوپ میں جھلسے ہوئے پیڑوں کو مرہم چاہئے
ہاں یہ صدمہ بھی گزر جائے گا اک دن دیکھنا
تو اپنی محبت پہ یقیں کیوں نہیں کرتا
مجھ پر یقیں ہے تو مرے ساتھ چل کے دیکھ
یہ کن صداؤں میں شب بھر گھرا سا رہتا ہوں
تو بھی لگتا ہے مجھے بھول گیا ہے شاید
کچھ ایسے ہو گئی منسوب پیاس آنکھوں سے
ایسی عجیب کشمکش پہلے کبھی نہ تھی
آئینہ مجھ کو مری صورت دکھا کر رہ گیا
تھکن کو اوڑھے ہوئے دن ڈھلے جو گھر آئے
دشت کو سیراب کرنا تو ندی کا شوق تھا
بکھر نہ جائے کہیں حوصلہ سماعت کا
حقیقت کو تم اپنی آپ ہی جھٹلائے جاتے ہو
نہ کوئی موجِ بلا ہوں، نہ تیز دھارا ہوں
اب آگے وقت دکھلاتا ہے دیکھیں کیا کمال اپنے
اک جنوں شوق نے مشکل مری آسان کی
میں روز و شب کے اس معمول سے تنگ آچکا ہوں
پرندے کی طرح سہما ہوا ہوں
کہاں یہ دن نکلتا ہے، کہاں یہ سائے ڈھلتے ہیں
تمام عمر یہ آنکھیں سراب دیکھیں گی
مدتوں سے جاری ہے سلسلہ اڑانوں کا
بے سبب الزام کیوں رکھتے ہو اپنے خواب پر
گو میرے پاس ردِ عمل کا سبب بھی ہے
ساتھ چلے تھے لیکن پیچھے چھوٹ گئے
کل تک ہر یک کام کو اب ملتوی کریں
ٹوٹے ہوئے دلوں کے سوا اور کیا ملا
بے وجہ یہ کیوں کہوں حالات لے ڈوبے مجھے
ترا وسیلہ اے خوشبو یہ معتبر تو نہیں
ٹوٹے ہوئے پر میرے، دشمن بھی ہوا میری
جو مجھ پر قرض ہے تیرا، تجھے اے یار لوٹا دوں
سر ورق
شاد رہو، آباد رہو
فہرست
کسی تخلیق کے پیکر میں آنا چاہتا ہوں
مجھ کو تو کچھ خبر ہی نہیں کیا ہوا مجھے
سزائیں جتنی ملی ہیں اس ایک بھول کی ہیں
ان بھٹکتے بادلوں کا اور مت پیچھاکرو
نہ چشمِ تر بتاتی ہے، نہ زخمِ سر بتاتے ہیں
مرے نصیب نے پاکر شکستہ پر مجھ کو
اگر بے سمت ہو منزل مسافت بے کراں ٹھہرے
وحشتیں بھی کتنی ہیں آگہی کے پیکر میں
اور یوں مرے عروج پہ پہنچا دیا مجھے
سحر کو شب بناتی جارہی ہے
اتنا تو یاد ہے کہ تہہ آب لے گیا
ہر اک موسم کا خوگر ہوگیا ہوں
اگر ہر راستہ میرے لئے آسان ہو جاتا
اب ہمیں ہونے لگا اس بھول کا احساس بھی
وہ اس کی بے زبانی بھی عجب انداز کی ہوگی
آج رستے میں ملا تھا کوئی انجانا مجھے
یہ حسرت تھی کہ ہم اس میں کوئی چہرہ نیا دیکھیں
اک رات خود کو یوں بھی جگا کر تو دیکھتے
سوا تیرے تو چاہا کچھ نہیں تھا
تجھ سے بچھڑ کے غم کی شدت سمجھ رہا ہوں
اگر ذرا بھی ہمارا خیال کرتے ہو
کسی پر کیوں کوئی الزام رکھیں
پرانے داغ زخموں کے بھلا کب دل سے جاتے ہیں
وہ بارشیں ہیں کہ جائیں تو ہم کدھر جائیں
کوئی سوال نہ کر اور کوئی جواب نہ پوچھ
مری فریاد سنتے ہیں مگر خاموش رہتے ہیں
بر سرِ پیکار کس سے ہوں، مقابل کون ہے؟
نذر اقبال
اس الجھی ڈور کا کوئی سرا بھی نکلے گا
اب بکھرتا لگ رہا ہے دل کا شیرازہ مجھے
ابر بن جاؤں کہیں پیڑ کا سایہ ہو جاؤں
انتہا شاید یہی تو ہے ہر اس ویاس کی
چھپ کر کبھی ہوئیں کبھی کھل کر مرے خلاف
دیکھ کر بھی اپنی موجوں کا تماشا چپ رہا
تنہائیوں سے اپنی ہم آغوش ہو گئے
رتبے کو مرے خاک کا ہمسر سمجھ لیا
اسی حسرت میں میں نے کر لیا خوناب آنکھوں کو
اگر یوں آئینے کے رو بہ رو ہونا پڑے تجھ کو
کسی نے ایسے کیا مجھ پہ آشکار مجھے
اس قدر گردشِ حالات گراں گزری ہے
حسرتوں کا مآل دیکھا ہے
سنامی
سانسوں میں لے کے اتنی خوشبو کہاں سے آیا؟
کئی نا آشنا چہرے حجابوں سے نکل آئے
کچھ پتا نہیں چلتا، کچھ خبر نہیں ہوتی
پہلے تو دانستہ ٹھوکر کھاتے ہو
مانا تم سے کم اچھے ہیں
اور کیا کرتے مقدر کے حوالے کر دیا
یہ مجھ میں اور مرے بیچ میں حائل کیا ہے
تنہائیوں میں میرے سوا دوسرا ہے کون؟
بس ایک پل کو مجھے دستیاب ہو جاتاہے
اندھیروں میں بھٹکنا ہے، پریشانی میں رہنا ہے
دھوپ میں جھلسے ہوئے پیڑوں کو مرہم چاہئے
ہاں یہ صدمہ بھی گزر جائے گا اک دن دیکھنا
تو اپنی محبت پہ یقیں کیوں نہیں کرتا
مجھ پر یقیں ہے تو مرے ساتھ چل کے دیکھ
یہ کن صداؤں میں شب بھر گھرا سا رہتا ہوں
تو بھی لگتا ہے مجھے بھول گیا ہے شاید
کچھ ایسے ہو گئی منسوب پیاس آنکھوں سے
ایسی عجیب کشمکش پہلے کبھی نہ تھی
آئینہ مجھ کو مری صورت دکھا کر رہ گیا
تھکن کو اوڑھے ہوئے دن ڈھلے جو گھر آئے
دشت کو سیراب کرنا تو ندی کا شوق تھا
بکھر نہ جائے کہیں حوصلہ سماعت کا
حقیقت کو تم اپنی آپ ہی جھٹلائے جاتے ہو
نہ کوئی موجِ بلا ہوں، نہ تیز دھارا ہوں
اب آگے وقت دکھلاتا ہے دیکھیں کیا کمال اپنے
اک جنوں شوق نے مشکل مری آسان کی
میں روز و شب کے اس معمول سے تنگ آچکا ہوں
پرندے کی طرح سہما ہوا ہوں
کہاں یہ دن نکلتا ہے، کہاں یہ سائے ڈھلتے ہیں
تمام عمر یہ آنکھیں سراب دیکھیں گی
مدتوں سے جاری ہے سلسلہ اڑانوں کا
بے سبب الزام کیوں رکھتے ہو اپنے خواب پر
گو میرے پاس ردِ عمل کا سبب بھی ہے
ساتھ چلے تھے لیکن پیچھے چھوٹ گئے
کل تک ہر یک کام کو اب ملتوی کریں
ٹوٹے ہوئے دلوں کے سوا اور کیا ملا
بے وجہ یہ کیوں کہوں حالات لے ڈوبے مجھے
ترا وسیلہ اے خوشبو یہ معتبر تو نہیں
ٹوٹے ہوئے پر میرے، دشمن بھی ہوا میری
جو مجھ پر قرض ہے تیرا، تجھے اے یار لوٹا دوں
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.