سرورق
ترتیب
انتساب
پیش لفظ
تعارف وتعلّق
حرف آغاز
غزلیں
ٹوٹتا ہوں کبھی جڑتا ہوں میں
دور کے جلووں کی شادابی کا دلدادہ نہ ہو
کہاں سے آج تری یاد کی ہوا آئی
جب سخن موج تخیّل سے روانی مانگے
آج سے پہلے بھی یوں تو میں اسے بھولا نہ تھا
یہ ایک ابر کا ٹکڑا برس گیا بھی تو کیا؟
آئینہ میرے سامنے جب تک ہوا نہ تھا
سمجھ کے سنگ گراں کر نہ پاش پاش اسے
آئنے کتنے تھے لیکن ساخت اک جیسی نہ تھی
سرد جب تک نہ ہوا الاؤ میاں!
یہ اندھیرا ہے روح کا بابا!
صدیوں سے مقفّل ہے گھر تازہ ہوا مانگے
چڑھتے سورج سے عبث بر سرپیکار تھا وہ
جنت غازہ سے کس درجہ بدل جاتے ہیں لوگ
پر فسوں سائے گھنیری شام کے
کانٹے کو پھول سنگ کو گوہر کہا گیا
ہار جیت تو بنی ہوئی ہے اسکی چنتا چھوڑوتم
کہیں ضرور لٹے ہیں یہ قافلے والے
رنگ گلاب بوئے سمن کون لے گیا
رونے والوں پر یہ دنیا ہنستی ہے
نہ مڑ کے گھاٹ کی جانب بہاؤ میں دیکھا
ہو کوئی طرفہ جمالی تو مکرّر دیکھیں
انھیں پہ کھلتے ہیں کم راحتوں کے دروازے
جب سے پکّی سڑک بن گئی گاؤں میں
ہم کہاں جائیں کہ ہیں بے سروسامان ازل
گرا پھسل کے جو اک خواب کی چٹان سر میں
ہم بھی کرلیں نمود سحر کا یقیں
دل فگاروں کی طرح قسمت کی ہیٹی دوپہر
تمنّاؤں سے بھرتا ہی نہیں دل
کتنی دل کش کس قدر اندوہ گئں لگتی ہے شام
زندگانی دھوپ میں تپتی ہوئی پتھر کی بینچ
آئی ہے تو کیا یہیں آکر پسر جائے گی رات
جس سےبہار لالہ وگل کو ملے ثبات
دستک سن کر اگوانی کو میں پہنچا دروازے پر
درجوشوکیس میں یکدانہ لگے
کبھی دھندلا کبھی بھورا کبھی کالا بادل
میں گرد بادساآوارہ رہ گذار میں تھا
ہو جب در یوزہ گربستی کی بستی
ہر نفس ایک نیا روپ دکھاتی ہے میاں!
دور تھا ساحل بہت دریا بھی طغیانی میں تھا
سامنا مل کے ہوا کا نہ ہوا
اور مستحکم ہوا دل حادثوں کے درمیاں
نقش قدم نہ بانگ درا چاہئیے اسے
کبھی رقیب کبھی یار مہرباں کی طرح
ظلمت شب سے الجھنا ہے سحر ہونے تک
بادل امبر پہ نہ دھرتی پہ شجر ہے بابا!
آجائے اپنی ذات بھی جس میں نظر مجھے
اس درجہ پیچ وتاب کی کیا بات ہے میاں!
اونچے قصر بڑے دروازے اور لمبی چوڑی دیواریں
جدھر نگاہ کریں رنگ و نور کا عالم
ارض شفق پہ خون میں لت پت پڑی ہے رات
اشک خوں ناب اگر زینت مژگاں نہ ہوا
انبار آرزو کو کہیں پھینکتے چلیں
مری حیات کے بے آب و رنگ شیشے پر
دن میں جو طرفہ حسیں خواب بنا کرتے ہیں
نہ کہیں ابر کی چادر نہ شجر کا سایا
غیر کا عیب ہنر ہے اپنا
سخن وہ جو پیغمبرانہ بھی ہو
بہت تیز خوشبو ہواؤں میں تھی
خنکیٔ سایۂ دیوار میں سونے والے
تیشۂ فن سے اگر اس کو تراشا ہوتا
گھومتے پھرتے تری چھت پر جو آئی چاندنی
کبھی دہکتی، کبھی مہکتی کبھی مچلتی آئی دھوپ
قبائے لالہ و گل بھی ہے خوب اپنی جگہ
راہ کا پتھر ہوں پیہم ٹھوکروں کے درمیاں
اور ہونگے وہ کوئی آنکھ چرانے والے
دیکھو بھری بہار میں کہسار کا بدن
کس کو آواز دے رہا ہے میاں!
رات بزم عیش میں دیکھا جو ہم نے غور سے
یہ کس طلسم کا منظر دکھائی دینے لگا
آئینہ لے کے جو میں دل کی سڑک پر نکلا
سیلاب خواہشوں کا جو چڑھ کر اتر گیا
سیم وزر چاہے نہ الماس وگہر مانگے ہے
یوں تو محفل میں نا آشنا کون تھا؟
چہروں سے غم کی دھول اتارو مسافرو!
اوّل اوّل جس پر تھا وسواس بہت
ہر وہ لمحہ جو مئے عیش پلاتا ہے مجھے
لئے جاتا ہے موت کی جانب
مراو جود ہے اک نقش آب کی صورت
کچھ دن رہ کر ساتھ وہ چنچل چھور گیا
کیسے کیسے اجلے چہرے، کیسے کیسے پیارے لوگ؟
کھڑکی کھڑکی درد براجے چوکھٹ چوکھٹ بیٹھی سوچ
پہلے تو اک جھوٹ مرے کھاتے میں ڈالا لوگوں نے
جب مصیبت ہوئی نازل تو سبھی ایک ہوئے
لمحہ لمحہ ہے گرانبار بچا لو مجھ کو
یقیں کا مہر بھی دیتا رہا حیات کو نور
خود سے بھی کبھی حساب لیں ہم
وہ لے گیا نہ اس کی ادا لے گئی مجھے
ویسا نہیں ہے کوئی بھی جیسا دکھائی دے
ہر ایک شخص خفا مجھ سے انجمن میں تھا
کبھی تو جس سے ملوں معتبر لگے مجھ کو
کٹی پتنگ ہوں سمت سفر سے کیا مجھ کو
بدل اگر یہ تقاضا کرے بدلنے کا
دور ہی دور سے خوشیوں نے توٹالا ہے مجھے
بوند پانی کی ہوں تھوڑی سی ہوا ہے مجھ میں
کتر کے پردہ ہوا میں اچھالتا ہے مجھے
حیات کیا ہے مآل حیات کیا ہوگا
وہ جانیوالا تھا کب یوں حریم جاں سے پرے
تاثرّات
سرورق
ترتیب
انتساب
پیش لفظ
تعارف وتعلّق
حرف آغاز
غزلیں
ٹوٹتا ہوں کبھی جڑتا ہوں میں
دور کے جلووں کی شادابی کا دلدادہ نہ ہو
کہاں سے آج تری یاد کی ہوا آئی
جب سخن موج تخیّل سے روانی مانگے
آج سے پہلے بھی یوں تو میں اسے بھولا نہ تھا
یہ ایک ابر کا ٹکڑا برس گیا بھی تو کیا؟
آئینہ میرے سامنے جب تک ہوا نہ تھا
سمجھ کے سنگ گراں کر نہ پاش پاش اسے
آئنے کتنے تھے لیکن ساخت اک جیسی نہ تھی
سرد جب تک نہ ہوا الاؤ میاں!
یہ اندھیرا ہے روح کا بابا!
صدیوں سے مقفّل ہے گھر تازہ ہوا مانگے
چڑھتے سورج سے عبث بر سرپیکار تھا وہ
جنت غازہ سے کس درجہ بدل جاتے ہیں لوگ
پر فسوں سائے گھنیری شام کے
کانٹے کو پھول سنگ کو گوہر کہا گیا
ہار جیت تو بنی ہوئی ہے اسکی چنتا چھوڑوتم
کہیں ضرور لٹے ہیں یہ قافلے والے
رنگ گلاب بوئے سمن کون لے گیا
رونے والوں پر یہ دنیا ہنستی ہے
نہ مڑ کے گھاٹ کی جانب بہاؤ میں دیکھا
ہو کوئی طرفہ جمالی تو مکرّر دیکھیں
انھیں پہ کھلتے ہیں کم راحتوں کے دروازے
جب سے پکّی سڑک بن گئی گاؤں میں
ہم کہاں جائیں کہ ہیں بے سروسامان ازل
گرا پھسل کے جو اک خواب کی چٹان سر میں
ہم بھی کرلیں نمود سحر کا یقیں
دل فگاروں کی طرح قسمت کی ہیٹی دوپہر
تمنّاؤں سے بھرتا ہی نہیں دل
کتنی دل کش کس قدر اندوہ گئں لگتی ہے شام
زندگانی دھوپ میں تپتی ہوئی پتھر کی بینچ
آئی ہے تو کیا یہیں آکر پسر جائے گی رات
جس سےبہار لالہ وگل کو ملے ثبات
دستک سن کر اگوانی کو میں پہنچا دروازے پر
درجوشوکیس میں یکدانہ لگے
کبھی دھندلا کبھی بھورا کبھی کالا بادل
میں گرد بادساآوارہ رہ گذار میں تھا
ہو جب در یوزہ گربستی کی بستی
ہر نفس ایک نیا روپ دکھاتی ہے میاں!
دور تھا ساحل بہت دریا بھی طغیانی میں تھا
سامنا مل کے ہوا کا نہ ہوا
اور مستحکم ہوا دل حادثوں کے درمیاں
نقش قدم نہ بانگ درا چاہئیے اسے
کبھی رقیب کبھی یار مہرباں کی طرح
ظلمت شب سے الجھنا ہے سحر ہونے تک
بادل امبر پہ نہ دھرتی پہ شجر ہے بابا!
آجائے اپنی ذات بھی جس میں نظر مجھے
اس درجہ پیچ وتاب کی کیا بات ہے میاں!
اونچے قصر بڑے دروازے اور لمبی چوڑی دیواریں
جدھر نگاہ کریں رنگ و نور کا عالم
ارض شفق پہ خون میں لت پت پڑی ہے رات
اشک خوں ناب اگر زینت مژگاں نہ ہوا
انبار آرزو کو کہیں پھینکتے چلیں
مری حیات کے بے آب و رنگ شیشے پر
دن میں جو طرفہ حسیں خواب بنا کرتے ہیں
نہ کہیں ابر کی چادر نہ شجر کا سایا
غیر کا عیب ہنر ہے اپنا
سخن وہ جو پیغمبرانہ بھی ہو
بہت تیز خوشبو ہواؤں میں تھی
خنکیٔ سایۂ دیوار میں سونے والے
تیشۂ فن سے اگر اس کو تراشا ہوتا
گھومتے پھرتے تری چھت پر جو آئی چاندنی
کبھی دہکتی، کبھی مہکتی کبھی مچلتی آئی دھوپ
قبائے لالہ و گل بھی ہے خوب اپنی جگہ
راہ کا پتھر ہوں پیہم ٹھوکروں کے درمیاں
اور ہونگے وہ کوئی آنکھ چرانے والے
دیکھو بھری بہار میں کہسار کا بدن
کس کو آواز دے رہا ہے میاں!
رات بزم عیش میں دیکھا جو ہم نے غور سے
یہ کس طلسم کا منظر دکھائی دینے لگا
آئینہ لے کے جو میں دل کی سڑک پر نکلا
سیلاب خواہشوں کا جو چڑھ کر اتر گیا
سیم وزر چاہے نہ الماس وگہر مانگے ہے
یوں تو محفل میں نا آشنا کون تھا؟
چہروں سے غم کی دھول اتارو مسافرو!
اوّل اوّل جس پر تھا وسواس بہت
ہر وہ لمحہ جو مئے عیش پلاتا ہے مجھے
لئے جاتا ہے موت کی جانب
مراو جود ہے اک نقش آب کی صورت
کچھ دن رہ کر ساتھ وہ چنچل چھور گیا
کیسے کیسے اجلے چہرے، کیسے کیسے پیارے لوگ؟
کھڑکی کھڑکی درد براجے چوکھٹ چوکھٹ بیٹھی سوچ
پہلے تو اک جھوٹ مرے کھاتے میں ڈالا لوگوں نے
جب مصیبت ہوئی نازل تو سبھی ایک ہوئے
لمحہ لمحہ ہے گرانبار بچا لو مجھ کو
یقیں کا مہر بھی دیتا رہا حیات کو نور
خود سے بھی کبھی حساب لیں ہم
وہ لے گیا نہ اس کی ادا لے گئی مجھے
ویسا نہیں ہے کوئی بھی جیسا دکھائی دے
ہر ایک شخص خفا مجھ سے انجمن میں تھا
کبھی تو جس سے ملوں معتبر لگے مجھ کو
کٹی پتنگ ہوں سمت سفر سے کیا مجھ کو
بدل اگر یہ تقاضا کرے بدلنے کا
دور ہی دور سے خوشیوں نے توٹالا ہے مجھے
بوند پانی کی ہوں تھوڑی سی ہوا ہے مجھ میں
کتر کے پردہ ہوا میں اچھالتا ہے مجھے
حیات کیا ہے مآل حیات کیا ہوگا
وہ جانیوالا تھا کب یوں حریم جاں سے پرے
تاثرّات
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔