ہائیکو نگاری اور زرد پتّوں کی شال
شام ،خنکی ،ہوا نمبر کی
زندگی کے کھلے سمندر میں
خار دار تاروں کی
رات کی دیوار پر
دور اک جلے ہوئے
میں نے دیکھے خواب میں
شام کے دھند لکے میں
چاند چھپ کے تکتا تھا
بے نصاب لوگوں میں
سبز کھیت دھان کے
کھیت زعفران کے
چھیڑ کر ہواؤں کو
ہونٹ کے اشارے سے
کنکریٹ کی چھت پر
اونگھتی رات کے مساموں پر
سر پھرے موسموں کے میلے میں
کتنے غنچے کھلا گئی دل میں
دور نیچے پہاڑی گاؤں کے
دکھ کی ایک بات ہے
داستاں طویل ہے
دور تک قطار میں
چلو اک خواب لکھتے ہیں
جائداد بٹ گئی
برگدوں کے سائے میں
ان کہی پہیلیاں
بارشوں کا موسم ہے
وصل رت ہے، آنکھوں میں
رات کے پر ہراس جنگل میں
اپنی چھوٹی سی اک شرارت سے
زرد پھیکے، تھکے، اکیلے دن
دور تک بے چراغ تھا رستہ
تیرے پہلو کو یاد کرتے ہی
ٹین کی چھت پہ سوکھنے کے لیے
بادلوں سے ڈھکی پہاڑی پر
شام اتری کھلے دریچوں میں
اس کو کھویا ہے، خود کو پایا ہے
دور یوں کا گمان رہتا ہے
سونے والوں کو کیا خبر شب بھر
اجلی اجلی فضا، چمکتی دھوپ
دور اس سینی ٹوریم سے پرے
فصل کٹنے والی ہے
زندگی اسیروں کی
پھولدار کپڑوں میں
وقت کے سمندر میں
پوپھٹے کا خواب تھا
رات بے لباس ،اور
سردیوں کی شام تھی
کیوں پرو کے لاتی ہے
پور پور روشن تھی
اک ہنسی بکھرتی ہے
پاپلر کی چھاؤں میں
پیلے پھول سرسو کے
رات کے کنارے پر
دور کوئی گاتا ہے
ٹوٹتے پتوں کی چاپ
منظروں کے اس طرف
شہریاروں سے کہو
دور جا کے روتے ہیں
رات کے بوسیدگی
رات کا پچھلا پہر
رات ٹوٹ کر برسا
چاندنی سایہ ترا
سالوں بعد لوٹا ہوں
صبح کاذب ،سائرن
ممٹیوں کی اوٹ میں
سر ادھ اُدھر ملے
ساحلوں کی ریت پر
ساحلی چٹانوں پر
کانچ کے گلاب تھے
تم نے بھی تو دیکھا ہے
تو سراپا الاؤ خوشبو کا
درمیاں موسموں کی دور تھی
ڈوبتی شام کی اداسی میں
چاند کی دودھیا حرارت سے
پانیوں کو زمیں نہیں ملتی
سارے آدرش ٹوٹ پھوٹ گئے
رات کے بیکراں سمندر میں
بچے گلیوں میں شور کرتے ہیں
کچھ نہ پایا گیا تلاشی میں
سرد تار یک رات، سنّاٹا
آخری شام تھی دسمبر کی
رات کے دل میں سورج تھا
کل گلابوں کی اک نمائش میں
وہ سمندر ہے اور پیا سا ہے
دریچے میں کھڑی لڑکی
ردائے آب لگتا ہے
تھکن سے چور ہوتے ہیں
کہیں اس پار اترے ہیں
نئے گیتوں کا البم ہے
ہمارے ہاتھ جنگل ہیں
ہجوم شہر میں ناصرؔ
مسلسل ساتھ رہنے سے
گھنے تاریک جنگل میں
ہوا میں تیرتے بادل
برآمد ے میں کھڑی ہوا کو
قرمزی غرارے میں
دوراک کھجور ہے
موسم سرما کا چاند
چھک چھک کرتی ریل
تنہائی کا ساز
دور کہیں اک پھول
گندم کی کھڑی فصلیں
روشنی تھامے ہوئے
خواب میں پیدا ہوئے
زرد پتوں کی شال
ہائیکو نگاری اور زرد پتّوں کی شال
شام ،خنکی ،ہوا نمبر کی
زندگی کے کھلے سمندر میں
خار دار تاروں کی
رات کی دیوار پر
دور اک جلے ہوئے
میں نے دیکھے خواب میں
شام کے دھند لکے میں
چاند چھپ کے تکتا تھا
بے نصاب لوگوں میں
سبز کھیت دھان کے
کھیت زعفران کے
چھیڑ کر ہواؤں کو
ہونٹ کے اشارے سے
کنکریٹ کی چھت پر
اونگھتی رات کے مساموں پر
سر پھرے موسموں کے میلے میں
کتنے غنچے کھلا گئی دل میں
دور نیچے پہاڑی گاؤں کے
دکھ کی ایک بات ہے
داستاں طویل ہے
دور تک قطار میں
چلو اک خواب لکھتے ہیں
جائداد بٹ گئی
برگدوں کے سائے میں
ان کہی پہیلیاں
بارشوں کا موسم ہے
وصل رت ہے، آنکھوں میں
رات کے پر ہراس جنگل میں
اپنی چھوٹی سی اک شرارت سے
زرد پھیکے، تھکے، اکیلے دن
دور تک بے چراغ تھا رستہ
تیرے پہلو کو یاد کرتے ہی
ٹین کی چھت پہ سوکھنے کے لیے
بادلوں سے ڈھکی پہاڑی پر
شام اتری کھلے دریچوں میں
اس کو کھویا ہے، خود کو پایا ہے
دور یوں کا گمان رہتا ہے
سونے والوں کو کیا خبر شب بھر
اجلی اجلی فضا، چمکتی دھوپ
دور اس سینی ٹوریم سے پرے
فصل کٹنے والی ہے
زندگی اسیروں کی
پھولدار کپڑوں میں
وقت کے سمندر میں
پوپھٹے کا خواب تھا
رات بے لباس ،اور
سردیوں کی شام تھی
کیوں پرو کے لاتی ہے
پور پور روشن تھی
اک ہنسی بکھرتی ہے
پاپلر کی چھاؤں میں
پیلے پھول سرسو کے
رات کے کنارے پر
دور کوئی گاتا ہے
ٹوٹتے پتوں کی چاپ
منظروں کے اس طرف
شہریاروں سے کہو
دور جا کے روتے ہیں
رات کے بوسیدگی
رات کا پچھلا پہر
رات ٹوٹ کر برسا
چاندنی سایہ ترا
سالوں بعد لوٹا ہوں
صبح کاذب ،سائرن
ممٹیوں کی اوٹ میں
سر ادھ اُدھر ملے
ساحلوں کی ریت پر
ساحلی چٹانوں پر
کانچ کے گلاب تھے
تم نے بھی تو دیکھا ہے
تو سراپا الاؤ خوشبو کا
درمیاں موسموں کی دور تھی
ڈوبتی شام کی اداسی میں
چاند کی دودھیا حرارت سے
پانیوں کو زمیں نہیں ملتی
سارے آدرش ٹوٹ پھوٹ گئے
رات کے بیکراں سمندر میں
بچے گلیوں میں شور کرتے ہیں
کچھ نہ پایا گیا تلاشی میں
سرد تار یک رات، سنّاٹا
آخری شام تھی دسمبر کی
رات کے دل میں سورج تھا
کل گلابوں کی اک نمائش میں
وہ سمندر ہے اور پیا سا ہے
دریچے میں کھڑی لڑکی
ردائے آب لگتا ہے
تھکن سے چور ہوتے ہیں
کہیں اس پار اترے ہیں
نئے گیتوں کا البم ہے
ہمارے ہاتھ جنگل ہیں
ہجوم شہر میں ناصرؔ
مسلسل ساتھ رہنے سے
گھنے تاریک جنگل میں
ہوا میں تیرتے بادل
برآمد ے میں کھڑی ہوا کو
قرمزی غرارے میں
دوراک کھجور ہے
موسم سرما کا چاند
چھک چھک کرتی ریل
تنہائی کا ساز
دور کہیں اک پھول
گندم کی کھڑی فصلیں
روشنی تھامے ہوئے
خواب میں پیدا ہوئے
زرد پتوں کی شال
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.