دو باتیں
غزلیں
نار سائی میں فغاں کی آبرو ہے دوستو
د ل تو دیوانہ سہی لیکن ہوس کا کیا علاج
اس دشمن تمکیں کا اشارا بھی بہت ہے
ہم اہل دل جہاں سے گزرتے چلے گئے
دل کے لیے گداز تمنا کہاں سے لاؤں
مانا رہیں یاس نہیں دل کی آرزو
فراغ دل کو کہاں غم کے مشغلے کے سوا
تھکے ہیں لاکھ مسافر سفر ہے کیا کیجے
کسے دوام کی فرصت یہاں خطر کی طرح
پریشاں ہوگئے ہم صورت گرد سفر آخر
حیات شوق میں ناکامیوں کا غم کیوں ہو
آوارگی شوق کے حاصل کی طرح ہے
دور حیات وقف غم جستجو سہی
فرصت کہاں جو دل کی جراحت کا غم کریں
رہ طلب میں کسے آرزوے منزل ہے
مونس نہ کوئی دوست تری یاد کی طرح
جستجو ہو تو سفر ختم کہاں ہوتاہے
سواد غم میں کہیں گوشۂ اماں نہ ملا
تاباں کسے شریک غم رہ گذر کہوں
شوق کا تقاضاہے شرح آرزو کیجے
ہے خلوص کا مسلک، دشمن اثر آخر
کوئی کرے گا خطاؤں سے در گذر کب تک
یہ مشورہ تھا خرد کا کہیں کے ہو جاؤ
نمو کے فیض سے رنگ چمن نکھر سا گیا
ایک تم ہی نہیں دنیا میں جفا کار بہت
خلوص بچ گیا الزام سے گدائی کے
غم ہاے روز گار سے فرصت کہاں مجھے
کبھی عیادت دل کو جو آرزو آئی
تری تلاش میں جس رہ گذر سے گزرا ہوں
دہر سے اٹھ سی گئی رسم وفا کیا کیجے
ستم کی معذرت تو خیراک دستور دنیا ہے
مہیا کردیے موسم نے سامان جنوں کیا کیا
مدت سے حسن وعشق میں اک آشتی سی ہے
منزلوں سے بے گانہ آج بھی سفر میرا
جب دل پر پڑا ہے تری آواز کا سایہ
دور لطف ساقی کا کس کو راس آتا ہے
تمام جہد وتحسیں تمام درد سہی
لطف یہ ہے جسے آشوب جہاں کہتا ہوں
ہر ستم لطف ہے دل خوگر آزار کہاں
ملے گا درد تو درماں کی آرزو ہوگی
خیال دوست کو خوشبوے پیرہن کہیے
دور طوفاں میں بھی جی لیتے ہیں جینے والے
ایک تصویر بنی سر حد اظہار سے دور
کبھی جو کی بھی تو یوں شرح آرزو میں نے
یوں تو ہر نقش تغافل کو میں باطل کہہ دوں
حیات نو کا تجھے نامہ بر کہا میں نے
نزدیک سے کھلتے نہیں تصویر کے جوہر
لمحۂ درد کو اعجاز تمنا جانو
زخم بن جائے کبھی زخم کو مرہم بن جائے
اب کج ادائیوں کے کھلیں گے چمن کہاں
شکست شوق بہت نا گوار بھی تو نہیں
غم ہائے روز گار سے دل شاد کیجئے
ہر موڑ کو چراغ سر رہ گذر کہو
حیات نرم دھند لکوں میں کھو گئی ہوگی
جلوہ پابند نظر بھی ہے نظر ساز بھی ہے
کوچۂ شوق رہ فکرو نظر سے گزرے
سر تا بقدم ایک حسیں راز کا عالم
بہار آئی گل افشانیوں کے دن آئے
چمن میں کس نے کسی بے نوا کا ساتھ دیا
بھر آئی آنکھ تو اکثر کسی کے نام کے ساتھ
ظالم وہ تری پہلی نظر یاد رہے گی
دولت فکر رساطبع رواں پائی ہے
اس شوخ کی ناوک فگنی میرے لیے ہے
وابستہ آرزوے نظر ہے تمھارے ساتھ
آج کسی نے باتوں باتوں میں جب ان کا نام لیا
عقل کہتی ہے حوادث سے بچانا دامن
جو لا نگہ بشر ہے سواد مہ ونجوم
ناصحوراہ نور دان طلب ہیں یہ لوگ
دل وہ کافر کہ سدا عیش کا ساماں مانگے
زلف اڑتی ہوئی رخسار فروزاں کے قریب
دل تباہ نے اک تازہ زندگی پائی
عشق میں بیگانۂ جذب واثر ہو جائے
کوئی منزل نہ کوئی راہ گزر ساتھ چلی
بہ قدر ظرف انجمن میں سب کو جام مل گیا
داد بھی فتنۂ بیداد بھی قاتل کی طرف
مری نظر سے نہ دیکھو مجھے خدا کے لیے
کسی کی سعی کرم رایگاں مگر جائے
تمام عمر کٹی ایک بے نوا کی طرح
اہل سفر کو خوب جزاے سفر ملی
نظمیں
جب سکوت شام میں اک نغمگی سی پاؤ گی
سحر
پس منظر
کوئی حریف غم رہ گذرملے نہ ملے
سوچتا ہوں
پہاڑی گیت
ایشیا
دیوالی
جیل میں کسی کا خط پاکر
ایک نظم
تاشقند
چاند اور میں
قطعے
مرا تو خیر ذکر کیا کہ خوگر شکست ہوں
نذر گگارن
چند شعر
نذر غالب
چند شعر
دو باتیں
غزلیں
نار سائی میں فغاں کی آبرو ہے دوستو
د ل تو دیوانہ سہی لیکن ہوس کا کیا علاج
اس دشمن تمکیں کا اشارا بھی بہت ہے
ہم اہل دل جہاں سے گزرتے چلے گئے
دل کے لیے گداز تمنا کہاں سے لاؤں
مانا رہیں یاس نہیں دل کی آرزو
فراغ دل کو کہاں غم کے مشغلے کے سوا
تھکے ہیں لاکھ مسافر سفر ہے کیا کیجے
کسے دوام کی فرصت یہاں خطر کی طرح
پریشاں ہوگئے ہم صورت گرد سفر آخر
حیات شوق میں ناکامیوں کا غم کیوں ہو
آوارگی شوق کے حاصل کی طرح ہے
دور حیات وقف غم جستجو سہی
فرصت کہاں جو دل کی جراحت کا غم کریں
رہ طلب میں کسے آرزوے منزل ہے
مونس نہ کوئی دوست تری یاد کی طرح
جستجو ہو تو سفر ختم کہاں ہوتاہے
سواد غم میں کہیں گوشۂ اماں نہ ملا
تاباں کسے شریک غم رہ گذر کہوں
شوق کا تقاضاہے شرح آرزو کیجے
ہے خلوص کا مسلک، دشمن اثر آخر
کوئی کرے گا خطاؤں سے در گذر کب تک
یہ مشورہ تھا خرد کا کہیں کے ہو جاؤ
نمو کے فیض سے رنگ چمن نکھر سا گیا
ایک تم ہی نہیں دنیا میں جفا کار بہت
خلوص بچ گیا الزام سے گدائی کے
غم ہاے روز گار سے فرصت کہاں مجھے
کبھی عیادت دل کو جو آرزو آئی
تری تلاش میں جس رہ گذر سے گزرا ہوں
دہر سے اٹھ سی گئی رسم وفا کیا کیجے
ستم کی معذرت تو خیراک دستور دنیا ہے
مہیا کردیے موسم نے سامان جنوں کیا کیا
مدت سے حسن وعشق میں اک آشتی سی ہے
منزلوں سے بے گانہ آج بھی سفر میرا
جب دل پر پڑا ہے تری آواز کا سایہ
دور لطف ساقی کا کس کو راس آتا ہے
تمام جہد وتحسیں تمام درد سہی
لطف یہ ہے جسے آشوب جہاں کہتا ہوں
ہر ستم لطف ہے دل خوگر آزار کہاں
ملے گا درد تو درماں کی آرزو ہوگی
خیال دوست کو خوشبوے پیرہن کہیے
دور طوفاں میں بھی جی لیتے ہیں جینے والے
ایک تصویر بنی سر حد اظہار سے دور
کبھی جو کی بھی تو یوں شرح آرزو میں نے
یوں تو ہر نقش تغافل کو میں باطل کہہ دوں
حیات نو کا تجھے نامہ بر کہا میں نے
نزدیک سے کھلتے نہیں تصویر کے جوہر
لمحۂ درد کو اعجاز تمنا جانو
زخم بن جائے کبھی زخم کو مرہم بن جائے
اب کج ادائیوں کے کھلیں گے چمن کہاں
شکست شوق بہت نا گوار بھی تو نہیں
غم ہائے روز گار سے دل شاد کیجئے
ہر موڑ کو چراغ سر رہ گذر کہو
حیات نرم دھند لکوں میں کھو گئی ہوگی
جلوہ پابند نظر بھی ہے نظر ساز بھی ہے
کوچۂ شوق رہ فکرو نظر سے گزرے
سر تا بقدم ایک حسیں راز کا عالم
بہار آئی گل افشانیوں کے دن آئے
چمن میں کس نے کسی بے نوا کا ساتھ دیا
بھر آئی آنکھ تو اکثر کسی کے نام کے ساتھ
ظالم وہ تری پہلی نظر یاد رہے گی
دولت فکر رساطبع رواں پائی ہے
اس شوخ کی ناوک فگنی میرے لیے ہے
وابستہ آرزوے نظر ہے تمھارے ساتھ
آج کسی نے باتوں باتوں میں جب ان کا نام لیا
عقل کہتی ہے حوادث سے بچانا دامن
جو لا نگہ بشر ہے سواد مہ ونجوم
ناصحوراہ نور دان طلب ہیں یہ لوگ
دل وہ کافر کہ سدا عیش کا ساماں مانگے
زلف اڑتی ہوئی رخسار فروزاں کے قریب
دل تباہ نے اک تازہ زندگی پائی
عشق میں بیگانۂ جذب واثر ہو جائے
کوئی منزل نہ کوئی راہ گزر ساتھ چلی
بہ قدر ظرف انجمن میں سب کو جام مل گیا
داد بھی فتنۂ بیداد بھی قاتل کی طرف
مری نظر سے نہ دیکھو مجھے خدا کے لیے
کسی کی سعی کرم رایگاں مگر جائے
تمام عمر کٹی ایک بے نوا کی طرح
اہل سفر کو خوب جزاے سفر ملی
نظمیں
جب سکوت شام میں اک نغمگی سی پاؤ گی
سحر
پس منظر
کوئی حریف غم رہ گذرملے نہ ملے
سوچتا ہوں
پہاڑی گیت
ایشیا
دیوالی
جیل میں کسی کا خط پاکر
ایک نظم
تاشقند
چاند اور میں
قطعے
مرا تو خیر ذکر کیا کہ خوگر شکست ہوں
نذر گگارن
چند شعر
نذر غالب
چند شعر
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.