سرورق
ترتیب
پیش لفظ
چند باتیں
نعت
نعت
نعت
خود اپنا عکس ہوں کہ کسی کی صدا ہوں میں
آئے ہیں اور گذرے ہیں کتنے ہی ماہ وسال
کٹی پھٹی سی یہ روحیں، گلے سڑے یہ بدن
سوتے سوتے چونک پڑے ہم خواب میں ہم نے کیا دیکھا
ہر ہر سانس نئی خوشبو کی اک آہٹ سی پاتا ہے
ہوا کے جھونکے جوآئیں تو ان سے کچھ نہ کہو
دیکھنے والا کوئی ملے تو دل کے داغ دکھاؤں
کیوں شمع بجھ کے رہ گئی کیسی ہوا چلی
ہر گھڑی عمر فرومایہ کی قیمت مانگے
خود بخود دور کبھی دل کا اندھیرا نہ ہوا
کہاں کھو گئی روح کی روشنی
بدلتا رہتا ہے کیا رنگ آسماں دیکھو
کیا قیامت ہے کہ ہم خود ہی کہیں خود ہی سنیں
بنے بنائے سے رستوں کا سلسلہ نکلا
یہ تمنا نہیں اب داد مبردے کوئی
چکھی ہے لمحے لمحے کی ہم نے مٹھاس بھی
کیو میں بے حس بن کے اوروں کی طرح سے زندہ ہوں
ان کہی
نیا آدمی
پچھلے جنم کی کتھائیں
حروف والفاظ کے ذخیرے
میں گوتم نہیں ہوں
آئینہ در آئینہ
لمحے کی موت
دنیا داری تو کیا آتی، دامن سینا سیکھ لیا
یہ مانا ہم نے یہ دنیا انوکھی ہے نرالی ہے
کیوں رو رو کرنیں گنوائیں رونے سے کیا ہوتا ہے
گھر میں بیٹھے سوچا کرتے ہم سے بڑھ کر کون دکھی ہے
میں کہاں ہوں کچھ بتا دے زندگی اے زندگی!
اک پل نہیں قرار کہ گردش بہت ہے یاں
اپنی بستی چھوڑ کر پردیش میں جائیں گے کیا
جی میں ہے معنی بے لفظ کو کیوں کر باندھوں
میرے آنگن کو مہکا دو
پھر مری راہ میں کھڑی ہوگی
کہاں کی مے، کہاں کے جام ومینا
یہ تو میرا اپناگھر ہے اپنے گھر جاؤ میاں!
شکستہ تر ہے جو اس خواب کے ھار میں ہوں
اگر چہ غیر کے ہاتھوں لہو لہان ہوا
رخ پہ گرد ملال تھی کیا تھی
جلتا نہیں اور جل رہا ہوں
اس پر بھی دشمنوں کا کہیں سایہ پڑگیا
درمیاں خود اپنی ہستی ہو تو ہم بھی کیا کریں
ہم تو گدائے گوشہ نشیں ہیں ہم کو غرور کمال نہیں
طرز جینے کے سکھاتی ہے مجھے
سایہ ہوں کوئی کہ اب شفق ہوں
ہم بانسری پر موت کی گاتے رہے نغمہ ترا
ابن انشا کی یاد میں
متفرق اشعار
کتبہ
کتبہ
کتبہ
کتبہ
کتبہ
کتبہ
بھائی
نیند پیاری نیند
مٹی کا گیت
ساقی ! ساقی! ساقی! میں متوالا ساقی کا
ساقی آیا ساقی آیا ساقی کا مستانہ بولا
اجوپی چو
کموصاحب
ھما
ماں
لوری
اصحاب فیل
کالی فضا کو کالی گھٹا کو دیکھ کے نکلے اہل عرب
جمع ہوئے سب اہل عرب بن گیا اک مطلبی لشکر
تانڈ وناچ
کالے سمندر سے اٹھا ہے یہ کیسا اندھیاؤ
پانی پانی سب چلاّتے لو وہ آنا پانی
پانی پانی پانی پانی، پانی میں اٹھتا ہے بھنور
سرورق
ترتیب
پیش لفظ
چند باتیں
نعت
نعت
نعت
خود اپنا عکس ہوں کہ کسی کی صدا ہوں میں
آئے ہیں اور گذرے ہیں کتنے ہی ماہ وسال
کٹی پھٹی سی یہ روحیں، گلے سڑے یہ بدن
سوتے سوتے چونک پڑے ہم خواب میں ہم نے کیا دیکھا
ہر ہر سانس نئی خوشبو کی اک آہٹ سی پاتا ہے
ہوا کے جھونکے جوآئیں تو ان سے کچھ نہ کہو
دیکھنے والا کوئی ملے تو دل کے داغ دکھاؤں
کیوں شمع بجھ کے رہ گئی کیسی ہوا چلی
ہر گھڑی عمر فرومایہ کی قیمت مانگے
خود بخود دور کبھی دل کا اندھیرا نہ ہوا
کہاں کھو گئی روح کی روشنی
بدلتا رہتا ہے کیا رنگ آسماں دیکھو
کیا قیامت ہے کہ ہم خود ہی کہیں خود ہی سنیں
بنے بنائے سے رستوں کا سلسلہ نکلا
یہ تمنا نہیں اب داد مبردے کوئی
چکھی ہے لمحے لمحے کی ہم نے مٹھاس بھی
کیو میں بے حس بن کے اوروں کی طرح سے زندہ ہوں
ان کہی
نیا آدمی
پچھلے جنم کی کتھائیں
حروف والفاظ کے ذخیرے
میں گوتم نہیں ہوں
آئینہ در آئینہ
لمحے کی موت
دنیا داری تو کیا آتی، دامن سینا سیکھ لیا
یہ مانا ہم نے یہ دنیا انوکھی ہے نرالی ہے
کیوں رو رو کرنیں گنوائیں رونے سے کیا ہوتا ہے
گھر میں بیٹھے سوچا کرتے ہم سے بڑھ کر کون دکھی ہے
میں کہاں ہوں کچھ بتا دے زندگی اے زندگی!
اک پل نہیں قرار کہ گردش بہت ہے یاں
اپنی بستی چھوڑ کر پردیش میں جائیں گے کیا
جی میں ہے معنی بے لفظ کو کیوں کر باندھوں
میرے آنگن کو مہکا دو
پھر مری راہ میں کھڑی ہوگی
کہاں کی مے، کہاں کے جام ومینا
یہ تو میرا اپناگھر ہے اپنے گھر جاؤ میاں!
شکستہ تر ہے جو اس خواب کے ھار میں ہوں
اگر چہ غیر کے ہاتھوں لہو لہان ہوا
رخ پہ گرد ملال تھی کیا تھی
جلتا نہیں اور جل رہا ہوں
اس پر بھی دشمنوں کا کہیں سایہ پڑگیا
درمیاں خود اپنی ہستی ہو تو ہم بھی کیا کریں
ہم تو گدائے گوشہ نشیں ہیں ہم کو غرور کمال نہیں
طرز جینے کے سکھاتی ہے مجھے
سایہ ہوں کوئی کہ اب شفق ہوں
ہم بانسری پر موت کی گاتے رہے نغمہ ترا
ابن انشا کی یاد میں
متفرق اشعار
کتبہ
کتبہ
کتبہ
کتبہ
کتبہ
کتبہ
بھائی
نیند پیاری نیند
مٹی کا گیت
ساقی ! ساقی! ساقی! میں متوالا ساقی کا
ساقی آیا ساقی آیا ساقی کا مستانہ بولا
اجوپی چو
کموصاحب
ھما
ماں
لوری
اصحاب فیل
کالی فضا کو کالی گھٹا کو دیکھ کے نکلے اہل عرب
جمع ہوئے سب اہل عرب بن گیا اک مطلبی لشکر
تانڈ وناچ
کالے سمندر سے اٹھا ہے یہ کیسا اندھیاؤ
پانی پانی سب چلاّتے لو وہ آنا پانی
پانی پانی پانی پانی، پانی میں اٹھتا ہے بھنور
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔