آج اکٹھا کر کے عشق کے ماروں کو
گھیر لیا ہے ہم نے دنیا داروں کو
ساتھ کے سارے قیدی ایسا کہتے تھے
ہم نے بھی گھر مان لیا دیواروں کو
اچھے ہو کر لوٹ گئے سب گھر لیکن
موت کا چہرہ یاد رہا بیماروں کو
دھار کو پرکھا زنگ کے دھبے صاف کیے
پھر بیٹھک میں ٹانگ دیا تلواروں کو
جاؤ اپنے حصے کے تم عیش کرو
عشق میں ہم بھی بھول گئے تھے یاروں کو
میرے علاوہ کون جگانے آتا ہے
پچھلے پہر کے سوئے ہوئے بازاروں کو
صبح کا مطلب صبح کا پہلا سگریٹ تھا
وہ بھی اب لا حاصل ہے بیماروں کو
- کتاب : دکھ نئے کپڑے بدل کر (Pg. 57)
- Author : شارق کیفی
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2019)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.