اب مجھے گلشن سے کیا جب زیر دام آ ہی گیا
اب مجھے گلشن سے کیا جب زیر دام آ ہی گیا
اک نشیمن تھا سو وہ بجلی کے کام آ ہی گیا
سن مآل سوز الفت جب یہ نام آ ہی گیا
شمع آخر جل بجھی پروانہ کام آ ہی گیا
طالب دیدار کا اصرار کام آ ہی گیا
سامنے کوئی بحسن انتظام آ ہی گیا
کوشش منزل سے تو اچھی رہی دیوانگی
چلتے پھرتے ان سے ملنے کا مقام آ ہی گیا
راز الفت مرنے والے نے چھپایا تو بہت
دم نکلتے وقت لب پر ان کا نام آ ہی گیا
کر دیا مشہور پردے میں تجھے زحمت نہ دی
آج کو ہونا ہمارا تیرے کام آ ہی گیا
جب اٹھا ساقی تو واعظ کی نہ کچھ بھی چل سکی
میری قسمت کی طرح گردش میں جام آ ہی گیا
حسن کو بھی عشق کی ضد رکھنی پڑتی ہے کبھی
طور پر موسیٰ سے ملنے کا پیام آ ہی گیا
دیر تک باب حرم پر رک کے اک مجبور عشق
سوئے بت خانہ خدا کا لے کے نام آ ہی گیا
رات بھر مانگی دعا ان کے نہ جانے کی قمرؔ
صبح کا تارہ مگر لے کر پیام آ ہی گیا
- کتاب : Auj-Qamar (Pg. 129)
- Author : Ustad Sayed Mohd. Hussain Qamar Jalalvi
- مطبع : Shaikh Shokat Ali And Sons (1952)
- اشاعت : 1952
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.