اوروں کا تھا بیان تو موج صدا رہے
اوروں کا تھا بیان تو موج صدا رہے
خود عمر بھر اسیر لب مدعا رہے
مثل حباب بحر غم حادثات میں
ہم زیر بار منت آب و ہوا رہے
ہم اس سے اپنی بات کا مانگیں اگر جواب
لہروں کا پیچ و خم وہ کھڑا دیکھتا رہے
آیا تو اپنی آنکھ بھی اپنی نہ بن سکی
ہم سوچتے تھے اس سے کبھی سامنا رہے
گلشن میں تھے تو رونق رنگ چمن بنے
جنگل میں ہم امانت باد صبا رہے
سرخی بنے تو خون شہیداں کا رنگ تھے
روشن ہوئے تو مشعل راہ بقا رہے
امجدؔ در نگار پہ دستک ہی دیجئے
اس بے کراں سکوت میں کچھ غلغلہ رہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.