باپ زندہ پھر رہا ہے اور بیٹے مر گئے
باپ زندہ پھر رہا ہے اور بیٹے مر گئے
بوڑھے برگد کے اچانک کتنے حصے مر گئے
تھا محبت کا وظیفہ اس لیے شاداب تھے
آنکھ سوئی باغباں کی اور پودے مر گئے
ذہن و دل میں خوف تھا یہ سانس رکنی ہے ضرور
ڈر کے قیدی دیکھیے پھر ڈرتے ڈرتے مر گئے
دے رہا ہے مجھ کو وہ رزق سخن آغاز سے
ورنہ میرے جیسے کتنے آئے کتنے مر گئے
اک طرف تھی عیش و عشرت کی فضا میراث میں
اور کچھ اسلاف کے غم ڈھوتے ڈھوتے مر گئے
اف درندوں کی بقا معصوم جانیں لے اڑی
کچھ شکم میں کچھ زمیں پر پاؤں دھرتے مر گئے
خود فریبی سے مزین زندگی کے روز و شب
بد نصیبی جھوٹ کہتے جھوٹ سنتے مر گئے
داستان عشق میں ماجدؔ نیا کردار ہے
مجھ سے پہلے فیضؔ و جالبؔ لکھتے لکھتے مر گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.