بجا کہ کشتی ہے پارہ پارہ تھپیڑے طوفاں کے کھا رہا ہوں
بجا کہ کشتی ہے پارہ پارہ تھپیڑے طوفاں کے کھا رہا ہوں
مگر یہ اعزاز کم نہیں ہے کہ آپ ہی اپنا ناخدا ہوں
کبھی تو میں نے دھنک دیے ہیں پہاڑ بھی اپنے راستے کے
کبھی میں خود اپنے راستے کی مہیب دیواریں ہو گیا ہوں
مجھے ہے شب خوں کی فکر لیکن انہیں ہلاکت کا ڈر نہیں ہے
مرے قبیلے کے لوگ سوتے ہیں اور شب بھر میں جاگتا ہوں
مری حقیقت تضاد کی اس گرہ کے کھلنے پہ منحصر ہے
میں وقت کا ہوں جلیل خسرو میں عہد کا بے نوا گدا ہوں
یہ بات الگ ہے کہ غنچہ غنچہ مرے چلن سے چٹک رہا ہے
صبا کا جھونکا ہوں گلستاں سے میں بے صدا سا گزر رہا ہوں
جہاں کا شیوہ ستم تھا لیکن مجھے وفا سے رہی ہے نسبت
جہاں غلط تھا کہ میں غلط تھا یہ بات رہ رہ کے سوچتا ہوں
مری جبیں کا چمکتا سورج مرے جلو میں سدا رہا ہے
میں رات کی ظلمتوں کو عارفؔ ازل سے للکارتا رہا ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.