بے کار جیا کرتے ہو مر کیوں نہیں جاتے
بے کار جیا کرتے ہو مر کیوں نہیں جاتے
جب ٹوٹ چکے ہو تو بکھر کیوں نہیں جاتے
معلوم ہے ہو جائے گا غرقاب سفینہ
ٹوٹی ہوئی کشتی سے اتر کیوں نہیں جاتے
پھولوں کی تمنا ہے اگر دل میں ذرا بھی
ہنستے ہوئے کانٹوں سے گزر کیوں نہیں جاتے
فرقوں میں بٹے ہو کہیں ذاتوں میں بٹے ہو
حالات کے مارے ہو سدھر کیوں نہیں چاہتے
بیزار اگر عہد وفا سے ہے طبیعت
ایسا کرو وعدے سے مکر کیوں نہیں جاتے
فاروقؔ یہ کیا حال بنا رکھا ہے تم نے
اب رات گزرنے کو ہے گھر کیوں نہیں جاتے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.