ایک منظر کہکشانی اک خط بر آب بھی
ایک منظر کہکشانی اک خط بر آب بھی
زندگی بالانشینی بھی کمند خواب بھی
کچھ جنوں کی سرفروشی کچھ خرد کا بانکپن
ورنہ ہے عضو معطل عالم اسباب بھی
دور ساحل سے تماشا دیکھتے رہتے ہیں لوگ
کشتیاں ہوتی ہیں زیر آب بھی غرقاب بھی
خستگی میں تجھ سے کیا شکوہ کہ اے جان مراد
اس بلندی سے نظر آتے نہیں احباب بھی
دل بھی لگ جائے گا مشکل سہل بھی ہو جائے گا
کار دنیا میں ملا دیں کار پیچ و تاب بھی
اپنی دھن پر لہلہانا کشت جاں کی خاصیت
موسموں کے درمیاں تشنہ بھی ہوں سیراب بھی
اس نظر کی شوخیوں نے لاابالی کر دیا
اس کی نظروں نے سکھائے شوق کے آداب بھی
فرق اتنا ہے کہ حیراں ہو کے رہ جاتی ہے آنکھ
آگ برساتا تھا پہلے دیدۂ شاداب بھی
تیرنے جوڑے بطوں کے اب یہاں آتے نہیں
گاؤں میں پانی سے خالی ہو گیا تالاب بھی
تیرے جلووں نے مٹایا امتیاز روز و شب
دیکھتا ہوں ماہ نو بھی مہر عالم تاب بھی
میں تھا نا معلوم شے تھی دیدۂ حیران تھا
ایسے منظر سے قریں تھا موجۂ سیلاب بھی
شاعری کیا ہے امین اشرفؔ نوائے برگ نے
عشق نامہ بھی غزل بھی آسماں محراب بھی
- کتاب : Bahar-e-ejaad (Pg. 62)
- Author : Sayed Ameen Ashraf
- مطبع : Sayed Ameen Ashraf (2007)
- اشاعت : 2007
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.