ایک رات آتی ہے ایک رات جاتی ہے
ایک رات آتی ہے ایک رات جاتی ہے
گیسوؤں کے سائے میں کس کو نیند آتی ہے
سلسلہ غم دل کا بے سبب نظر آیا
شمع سے کوئی پوچھے کیوں لہو جلاتی ہے
حسن سے بھی کچھ بڑھ کر بے نیاز ہے یہ غم
داغ دل محبت بھی گن کے بھول جاتی ہے
نام پڑ گیا اس کا کوچۂ حرم لیکن
یہ گلی بھی اے زاہد میکدے کو جاتی ہے
چلتے چلتے نبض غم ڈوبتی ہے یوں اکثر
اک تھکے مسافر کو جیسے نیند آتی ہے
ہاتھ رکھتی جاتی ہے یاس دل کے داغوں پر
میں دیا جلاتا ہوں وہ دیا بجھاتی ہے
مٹ گئے نشورؔ آ کر ذہن میں ہزاروں غم
شعریت کا عالم بھی رمز بے ثباتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.