گمنام ڈرے بیٹھے ہیں معمار غزل کے
گمنام ڈرے بیٹھے ہیں معمار غزل کے
چوروں نے سجا رکھے ہیں بازار غزل کے
پیتے ہیں لہو میرا جب اشعار غزل کے
تب جا کے چمک پاتے ہیں رخسار غزل کے
اس درجہ اثر دار ہیں اشعار غزل کے
فرزانے لئے بیٹھے ہیں اخبار غزل کے
چھیڑا جو ترنم تو تھرکنے لگیں سانسیں
جذبوں کا بدن چھونے لگے تار غزل کے
اقبالؔ کا ہو وقت کہ خسروؔ کا زمانہ
ہر دور میں گیسو رہے خم دار غزل کے
بہتر ہیں سبھی صنف سخن اپنی جگہ پر
لیکن مرے جذبات ہیں بیمار غزل کے
جس روز سے نازل ہوئی شعروں پہ جوانی
مفہوم ہوئے اور بھی تہہ دار غزل کے
جب ہوگی مرے ذہن کے ملبے کی کھدائی
رگ رگ میں مری نکلیں گے آثار غزل کے
جدت نہ روایت نہ فصاحت نہ بلاغت
ایسے بھی کہے جاتے ہیں اشعار غزل کے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.