ہاتھ کٹتے ہیں جہاں سینہ و سر کھلتے ہیں
ہاتھ کٹتے ہیں جہاں سینہ و سر کھلتے ہیں
ایسے ماحول میں ہم اہل ہنر کھلتے ہیں
دن نکلتا ہو جہاں خوف کا نیزہ بن کر
ایسی بستی میں کہاں رات کو در کھلتے ہیں
کیسے آسیب کا سایہ ہے مرے رستے پر
گرد چھٹتی ہے نہ اسرار سفر کھلتے ہیں
ہم نے اک عمر گزاری ہے انہی خوابوں میں
اب قفس ٹوٹتا ہے اور ابھی پر کھلتے ہیں
رخ پہ گلشن کے کھلیں جس کے دریچے اکثر
سوئے صحرا بھی اسی شہر کے در کھلتے ہیں
جن زمینوں پہ کھرے لوگ بسا لیں خود کو
راستے سیل بلا کے بھی ادھر کھلتے ہیں
اہل ساحل سے کہو کشف کی صورت رزمیؔ
موج کھلتی ہے کبھی ہم پہ بھنور کھلتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.