ہم آئے جب تو بجھا کر چراغ در آئے
ہم آئے جب تو بجھا کر چراغ در آئے
کہ اور کوئی نہ تنہائیوں کے گھر آئے
ابھارنے کے لئے نقش کوزہ گر آئے
تو خود ہی اڑ کے مری خاک چاک پر آئے
جہاں جہاں بھی اندھیروں کی حکمرانی تھی
چراغ نقش قدم ہم جلا کے دھر آئے
فضائے دشت سے مانوس ہو گیا مرا دل
اگرچہ سامنے ہر پھر کے بام و در آئے
نہ بستیاں تھیں نہ وہ بام و در نہ وہ چہرے
ہمارے قافلے جس وقت لوٹ کر آئے
یہ رشتہ سنگ و ثمر کا بہت پرانا ہے
چلے ہیں سنگ بھی جب شاخ پر ثمر آئے
نگاہ خم جو ہوئی دل جو خاک راہ ہوا
مرے قریب کئی لوگ معتبر آئے
کبھی تو موج سخن مہرباں ہو میرے لئے
کبھی تو ہاتھ کوئی دانۂ گہر آئے
یہ دشت کیوں نہیں دیتا کوئی جواب مجھے
یہ کیا کہ بس مری آواز لوٹ کر آئے
عجب ہے عدل کا معیار اس کی بستی میں
خرد گناہ کرے اور جنوں کے سر آئے
جب اس کے آنے کی امید ہی نہیں یاورؔ
اب اس سے کیا مجھے شام آئے یا سحر آئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.