ہم چل دیے تو راستے ہموار ہو گئے
اور رک گئے تو سایۂ دیوار ہو گئے
اب کیا پئیں شراب کہ ساقی بقدر ظرف
تجھ سے نظر ملا کے گنہ گار ہو گئے
دور خزاں میں جن کو تھا دیوانگی کا شوق
فصل بہار آتے ہی ہوشیار ہو گئے
اہل زمیں کو دیکھ کے کچھ ساکنان عرش
حیراں ہوئے تو نقش بہ دیوار ہو گئے
تا عمر سوچتے ہی رہے ہم کہ زندگی
ہے کیا عذاب جس میں گرفتار ہو گئے
آواز دی تھی موت کو یہ کون آ گیا
ہم پھر سے زندگی کے طلب گار ہو گئے
نشترؔ خیال گیسوئے جاناں لئے ہوئے
آئی کچھ ایسی نیند کہ بیدار ہو گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.