اک دامن رنگیں لہرایا مستی سی فضا میں چھا ہی گئی
اک دامن رنگیں لہرایا مستی سی فضا میں چھا ہی گئی
جب سیر چمن کو وہ نکلے پھولوں کی جبیں شرما ہی گئی
یہ صحن چمن یہ باغ جہاں خالی تو نہ تھا نکہت سے مگر
کچھ دامن گل سے دور تھا میں کچھ باد صبا کترا ہی گئی
احساس الم اور پاس حیا اس وقت کا آنسو صہبا ہے
اس چشم حسیں کو کیا کہئے جب پی نہ سکی چھلکا ہی گئی
خودبیں تھا مزاج حسن مگر دامان محبت چھو ہی گیا
انداز تغافل کچھ بھی سہی کچھ ان کی نظر فرما ہی گئی
ہر شعلہ گر عہد ظلمت انجام سے اپنے ڈرتا ہے
جب ذکر سحر محفل میں چھڑا کچھ شمع کی لو تھرا ہی گئی
اس دور میں کتنے شیخ حرم مے خانے کا رستہ پوچھ گئے
ساقی کی نظر بیگانہ سہی کچھ کار جہاں سمجھا ہی گئی
اک آہ جو شعلہ بار ہوئی عالم میں شرارے پھیل گئے
اک موج جو مضطر ہو کے اٹھی دریا کا لہو گرما ہی گئی
تہذیب کے رعنا پیکر سے یہ بار امانت اٹھ نہ سکا
ناظورۂ عہد حاضر کی نازک تھی کمر بل کھا ہی گئی
زہراب زمانہ پی پی کر جو اہل جنوں تھے راہ لگے
شاعر کو نشورؔ اک زلف دوتا غم دے نہ سکی الجھا ہی گئی
- کتاب : Sawad-e-manzil (Pg. 219)
- Author : Nushoor Wahedi
- مطبع : Maktaba Jamia Ltd, Delhi (2009)
- اشاعت : 2009
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.