اک تلاطم سا ہے ہر سمت تمناؤں کا
اک تلاطم سا ہے ہر سمت تمناؤں کا
دل پہ ہوتا ہے گماں شہر ہے دریاؤں کا
تو بھی اک بار مری روح کے آئینے میں
جھانک کر دیکھ تقدس ہے کلیساؤں کا
ہاں مگر قتل گہ شوق میں کچھ اور بھی تھے
ہاتھ کیوں مجھ پہ اٹھا میرے مسیحاؤں کا
اب کے گھنگھور گھٹا کھل کے جو برسے بھی تو کیا
دھوپ نے رنگ ہی کجلا دیا صحراؤں کا
اب سر دشت خود آرائی کھڑا ہوں تنہا
میں کہ دولہا تھا کبھی انجمن آراؤں کا
محسنؔ احسان کی اس سادہ دلی کے صدقے
دھوپ میں ڈھونڈھتا پھرتا ہے مزا چھاؤں کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.