علم و جاہ و زور و زر کچھ بھی نہ دیکھا جائے ہے
علم و جاہ و زور و زر کچھ بھی نہ دیکھا جائے ہے
بزم ساقی میں دلوں کا ظرف جانچا جائے ہے
کوششیں ہیں دشت کھنچ آئے گلستاں کی طرف
اور گلستاں ہے کہ سوئے دشت کھنچتا جائے ہے
چشم تر اک رہ گئی ہے یادگار عہد عشق
گاہے گاہے یہ مری راتوں کو چمکا جائے ہے
ہو چکے ہیں خشک سب احساس کے سوتے مگر
قلب شاعر ہے جو تھوڑی سی نمی پا جائے ہے
بول میٹھے پیار کے ہونٹوں میں یوں پھنستے ہیں آج
طفل جیسے گھر کے انجانوں میں شرما جائے ہے
کچھ نہ کچھ ننھے سے ہر تارے کی لو دیتی ہے آج
گو بہ ظاہر اس پہ شب کی تیرگی چھا جائے ہے
اس طرف امن و بقا اور اس طرف جنگ و فنا
دیکھیے یہ کارواں کس سمت ملاؔ جائے ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.