جنگل کی رات شہر سے کچھ مختلف نہ تھی
جنگل کی رات شہر سے کچھ مختلف نہ تھی
تنہائیوں کے جال میں وہ بھی پھنسی ملی
ایسی تھی تیز شہر کے گنبد کی روشنی
آنکھوں کا میرا نور ہی لے کر چلی گئی
ننھی سی دھوپ زرد سا چہرہ لیے ہوئے
کھڑکی کی جالیوں پہ ملی ناچتی ہوئی
کم مایہ اس کو جان کے ہرگز نہ چھیڑئیے
صد محشر خیال ہے فتنہ ہے آدمی
پوشیدہ میرے جسم کے اندر یہ کون ہے
ہر شب کرے ہے جاگ کے خوابوں کی رہزنی
خاطرؔ ورق ورق تھا مری زیست کا سیاہ
انجام کار جان کے کھولی نہ ڈائری
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.