جو قید اپنی ذات کی تنہائیوں میں تھا
جو قید اپنی ذات کی تنہائیوں میں تھا
وہ بھی سمجھ رہا تھا کہ گہرائیوں میں تھا
اک مہر نیمروز تھا اک چودھویں کا چاند
کس درجہ اختلاف مرے بھائیوں میں تھا
اس کا نہیں ملال تماشہ بنے رہے
غم تو یہ ہے کہ وہ بھی تماشائیوں میں تھا
خود مطلبی کے راگ نے بے لطف کر دیا
ورنہ مزہ خلوص کی شہنائیوں میں تھا
میں یوں صراط کرب سے ہنستا گزر گیا
تیرا خیال حوصلہ افزائیوں میں تھا
اب کیا کریں جو دل پہ کسی کے لگا ہو زخم
نشتر ہماری باتوں کی سچائیوں میں تھا
حالانکہ خود شفیقؔ بکھرتا چلا گیا
مصروف پھر بھی انجمن آرائیوں میں تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.