کہاں ثبات کا اس کو خیال ہوتا ہے
کہاں ثبات کا اس کو خیال ہوتا ہے
زمانہ ماضی ہی ہونے کو حال ہوتا ہے
فروغ بدر نہ باقی رہا نہ بت کا شباب
زوال ہی کے لیے ہر کمال ہوتا ہے
میں چاہتا ہوں کہ بس ایک ہی خیال رہے
مگر خیال سے پیدا خیال ہوتا ہے
بہت پسند ہے مجھ کو خموشی و عزلت
دل اپنا ہوتا ہے اپنا خیال ہوتا ہے
وہ توڑتے ہیں تو کلیاں شگفتہ ہوتی ہیں
وہ روندتے ہیں تو سبزہ نہال ہوتا ہے
سوسائٹی سے الگ ہو تو زندگی دشوار
اگر ملو تو نتیجہ ملال ہوتا ہے
پسند چشم کا ہرگز کچھ اعتبار نہیں
بس اک کرشمۂ وہم و خیال ہوتا ہے
- کتاب : ہنگامہ ہے کیوں برپا (Pg. 92)
- Author : اکبر الہ آبادی
- مطبع : ریختہ بکس (2023)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.