خاکداں کو ماورا آسماں لے جائے گا
خاکداں کو ماورا آسماں لے جائے گا
جو پرندہ سر پہ رکھ کر آشیاں لے جائے گا
میں فقط پیتا رہوں گا ساحلوں کی تشنگی
وہ سمندر کی سبھی طغیانیاں لے جائے گا
جب اتر جائیں گی تہہ میں خواہشوں کی کشتیاں
ناخدا اس وقت اپنے بادباں لے جائے گا
کارواں کے سب مسافر سوچتے ہیں شام سے
صبح دم کس سمت میر کارواں لے جائے گا
کیا خبر ہے کس کی پہلے پتلیاں پھر جائیں گی
کون اپنے ساتھ کیا سود و زیاں لے جائے گا
ہم کناروں پر کھڑے گنتے رہیں گے موج موج
اور سفینے کو کہیں آب رواں لے جائے گا
اب تو خطرے میں ہے محسنؔ خرقۂ درویش بھی
تو بچا کر شملہ عزت کہاں لے جائے گا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.