خوف منجدھار سے جو کھاتا ہے
خوف منجدھار سے جو کھاتا ہے
وہ کنارے پہ ڈوب جاتا ہے
تیر اس زاویہ سے آتا ہے
شک مرا دوستوں پہ جاتا ہے
میں نے بیساکھیاں جسے دی تھیں
وہ مجھے دوڑنا سکھاتا ہے
سانپ کی کینچلی کو لہرا کر
تو سپیروں کو کیا ڈراتا ہے
درد بیواؤں کا وہ کیا جانے
جو ہری چوڑیاں بناتا ہے
پاؤں اس کے بھی نرم ہوتے ہیں
جو تری پالکی اٹھاتا ہے
چھین لیتی ہے بال و پر قدرت
مور جب رقص بھول جاتا ہے
اک فرشتہ اڑان سے پہلے
تیرے کوچے سے کچھ اٹھاتا ہے
- کتاب : ہجر کی دوسری دوا (Pg. 55)
- Author : فہمی بدایونی
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2022)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.