خواہشوں کا ورد یوں مت کر پرائے شہر میں
خواہشوں کا ورد یوں مت کر پرائے شہر میں
فاختہ مر جائے گی گھٹ کر قبائے شہر میں
رات بھر دل میں سمندر کروٹیں لیتا رہا
رات بھر بہتا رہا دریا پرائے شہر میں
روشنی ہوتے ہی کالی آندھیاں چلنے لگیں
بجھ گئے جتنے دیے ہم نے جلائے شہر میں
زندگی کے پیڑ سے کچھ پھول بھی لپٹے رہے
پتھروں کی بھی رہائش تھی ردائے شہر میں
جی رہا ہوں بھوک کے پنجے کو سانسیں بیچ کر
پھر رہا ہوں لاش میں اپنی اٹھائے شہر میں
شام تک تھا کھڑکیوں میں پچھڑی آنکھوں کا ہجوم
چاندنی پھیلی تو آنسو تھے ہوائے شہر میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.