کیا ہے ہجر میں دامن کو تار آہستہ آہستہ
کیا ہے ہجر میں دامن کو تار آہستہ آہستہ
ہوا ہوں ایک سے میں بے شمار آہستہ آہستہ
ہم اہل ہجر وحشت میں کبھی مسکن نہ بدلیں گے
اٹھا لیں گے تمناؤں کا بار آہستہ آہستہ
بھلے جیسی بھی مشکل ہو صفوں میں منتظر رہنا
وہ کرتے ہیں غلاموں کو شمار آہستہ آہستہ
یہاں پہ سبزہ و گل مستقل بالکل نہیں رہتے
مرے گلشن میں آتی ہے بہار آہستہ آہستہ
ابھی ان پہ تسلط ہے عجب دنیائے وحشت کا
پلٹ آئیں گے تیرے جاں نثار آہستہ آہستہ
ہماری زندگانی کرب کے عالم میں گزری ہے
ہمیں ہجرت کے لمحوں سے گزار آہستہ آہستہ
مری اس گریہ و زاری کا جامیؔ خاص مقصد ہے
بچھڑتے جا رہے ہیں میرے یار آہستہ آہستہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.