کیوں ہو بہانہ جو نہ قضا سر سے پاؤں تک
کیوں ہو بہانہ جو نہ قضا سر سے پاؤں تک
ظالم میں آپ کی ہے ادا سر سے پاؤں تک
ساکت ہیں بعد مرگ قویٰ سر سے پاؤں تک
مہریں لگا گئی ہے قضا سر سے پاؤں تک
گھیرے تھی تجھ کو برق ادا سر سے پاؤں تک
کیوں نخل طور جل نہ گیا سر سے پاؤں تک
زنجیر بن گئی ہے قضا سر سے پاؤں تک
گویا رگیں ہیں دام بلا سر سے پاؤں تک
میں خود زبان شکر بنا سر سے پاؤں تک
ڈوبے نہ کیوں اثر میں دعا سر سے پاؤں تک
منہ چاند اس پہ زلف رسا سر سے پاؤں تک
کیوں لوٹ پوٹ ہو نہ ادا سر سے پاؤں تک
قاصد کہے گیا مری زردی رخ کا حال
اس داستاں کو خوب رنگا سر سے پاؤں تک
اے شمع تجھ سے صاف میں کہتا ہوں دل کا حال
جلنا ہی تھا تو جل نہ گیا سر سے پاؤں تک
شاید صبا خزاں کا فسانہ سنا گئی
ہر نخل باغ کانپ گیا سر سے پاؤں تک
دریائے عشق میں مجھے رکھنا نہ تھا قدم
ڈوبا تو خوب ڈوب گیا سر سے پاؤں تک
لی نخل طور کی نہ خبر تم نے اے کلیم
تم دیکھتے رہے وہ جلا سر سے پاؤں تک
آغاز ہی میں آپ نے کر دی زبان بند
قصہ ہمارا سن نہ لیا سر سے پاؤں تک
پھیلائیں یا نہ ہاتھ کو پھیلائیں شرم سے
دست طلب ہیں تیرے گدا سر سے پاؤں تک
تیرا کہاں جمال کہاں جلوہ گاہ طور
موسیٰ نے پھر نہ دیکھ لیا سر سے پاؤں تک
اللہ شادؔ غیر کی یہ عیب جوئیاں
تو خود پہ کر نگاہ ذرا سر سے پاؤں تک
- کتاب : Dewan-e-shad Azimabadi (Pg. 206)
- Author : Shad Azimabadi
- مطبع : Educational Publishing House (2005)
- اشاعت : 2005
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.