لاکھ دل مست ہو مستی کا عیاں راز نہ ہو
لاکھ دل مست ہو مستی کا عیاں راز نہ ہو
یہ وہ شیشہ ہے کہ ٹوٹے بھی تو آواز نہ ہو
خوف ہے موسم گل میں کہ صبا کا جھونکا
طائر ہوش کے حق میں پر پرواز نہ ہو
دل بہت بلبل شیدا کا ہے نازک گلچیں
پھول گل زار کے یوں توڑ کہ آواز نہ ہو
کیا قیامت ہے وہ دل توڑ رہے ہیں میرا
اس گماں پر کہ چھپا اس میں کوئی راز نہ ہو
آئینہ ہاتھ میں ہے حسن کا نظارہ ہے
ان سے کہہ دو مری حالت نظر انداز نہ ہو
ہو کے وہ مست مئے ناز گلے لپٹے ہیں
ہوش کمبخت کہیں تفرقہ پرداز نہ ہو
اس گرفتار کی پوچھو نہ تڑپ جس کے لیے
در قفس کا ہو کھلا طاقت پرواز نہ ہو
اہل دل کو جو لٹاتی ہے صدا نغمے کی
پردۂ ساز میں پنہاں تری آواز نہ ہو
تھام لینے دو کلیجہ مجھے ہاتھوں سے جلیلؔ
قصۂ درد جگر کا ابھی آغاز نہ ہو
- کتاب : Kainat-e-Jalil Manakpuri (Pg. 327)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.