مر کر بھی ہے تلاش مجھے کوئے یار کی
مر کر بھی ہے تلاش مجھے کوئے یار کی
مٹی خراب کیوں نہ ہو میرے غبار کی
وعدہ بھی کر کے آئے نہ اک شب وہ میرے گھر
چھٹکی نہ چاندنی قمر گلعذار کی
کچھ تار پیرہن سے نہیں امتیاز اب
حالت نہ پوچھئے مرے جسم نزار کی
آنا نہ تھا تو خط ہی کوئی آپ بھیجتے
تسکین کچھ تو ہوتی دل بے قرار کی
نرگس ہے شکل چشم تمنا بعینہ
لالہ بھی ہے شبیہ دل داغدار کی
گلدستہ پیش کیجیے لالہ کے پھولوں کا
سننی ہوں گالیاں جو کسی گلعذار کی
کیوں اس کے پیچھے ہوتی ہے حیران اے صبا
ملنے کی گرد بھی نہیں میرے غبار کی
وہ خاکسار تھے نہ ہوا سے ہوئی بلند
مرنے کے بعد خاک ہمارے مزار کی
وعدہ خلاف یار سے کہتا نہیں کوئی
طاقت نہیں رہی مجھے اب انتظار کی
دل کا اب آنکھوں سے یہ تقاضا ہے رات دن
تصویر سامنے رہے ہر دم نگار کی
غربت میں کیوں وطن کی تمنا نہ کیجیے
کیا کیا اذیتیں نہ سہیں دشت خار کی
یوسف عزیز مصر تھے حاصل تھی سلطنت
اس جاہ پر بھی چاہ تھی اپنے دیار کی
فرقت میں زندگانئئ شیریں ہے زہر آب
خواہش ہو خاک مجھ کو مے خوش گوار کی
عاجزؔ ہماری آنکھیں ترستی ہی رہ گئیں
نادیدوں کو نصیب رہی دید یار کی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.