مسافتوں میں دھوپ اور چھاؤں کا سوال کیا
مسافتوں میں دھوپ اور چھاؤں کا سوال کیا
سفر ہی شرط ہے تو پھر عروج کیا زوال کیا
فراق ساعتوں کے زخم روح تک پہنچ چکے
میسر آئیں بھی تو اب مساعیٔ وصال کیا
ہنر کو دھوپ جنگلوں کی مسکراہٹوں میں ہے
گلاب بستیوں میں ہنستے رہنے کا کمال کیا
امید ہی تو دل شجر کی آخری اساس تھی
شگوفہ یہ بھی ہو گیا خزاں سے پائمال کیا
تمام شہر ہی ہوا کے دوش پر سوار ہے
دکھائے کوئی زخم کیا سنائے کوئی حال کیا
- کتاب : Sadaa-e-aabju (Pg. 108)
- Author : Arshad Abdul Hameed
- مطبع : Arshad Abdul Hameed (2004)
- اشاعت : 2004
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.