مجھ ایسے واماندۂ جاں کو بستر وستر کیا
مجھ ایسے واماندۂ جاں کو بستر وستر کیا
پل دو پل کو موند لوں آنکھیں ورنہ گھر ور کیا
چھوڑو کیا رونا لے بیٹھے رنج و راحت کا
قید ہی جب ٹھہری ہستی تو بہتر وہتر کیا
میں بھی سر ٹکراتا پھرا ہوں دیواروں سے بہت
ڈھونڈھ رہے ہو اس گنبد میں کوئی در ور کیا
آخر کو تھک ہار کے مجھ کو زمیں پر آنا ہے
زور و شور بازو کیسا شہپر وہپر کیا
میرے قلم ہی سے جب میرا رزق اترتا ہے
جانا ہے اک کار زیاں کو دفتر وفتر کیا
صورت ایک تراشوں گا تو سو رہ جائیں گی
کیوں پتھر کو سبک کروں میں پیکر ویکر کیا
بالیدہ بار آور ہونا مٹی ہو جانا
سرسبزی زرخیزی کیسی بنجر ونجر کیا
آب و سراب و خواب و حقیقت ایک سے لگتے ہیں
دیدہ وری کیا آئینہ کا جوہر ووہر کیا
مجھ کو بہائے لے جاتی ہے خود ہی موج مری
میرا رستہ روک سکیں گے پتھر وتھر کیا
رنگ شفق سبزے کا نشہ کچھ نہیں آنکھوں میں
دور خلا میں دیکھ رہا ہوں منظر ونظر کیا
میرا اور ساحل کا رشتہ کب کا ٹوٹ چکا
زیبؔ کہاں کا خیمۂ کشتی لنگر ونگر کیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.