نخل ہستی پہ جو اشکوں کا ثمر لگتا ہے
نخل ہستی پہ جو اشکوں کا ثمر لگتا ہے
موسم ہجر کی تلخی کا اثر لگتا ہے
دل کو تسکین ملی جب سے ملا ہوں اس سے
یار وہ شخص مجھے اہل نظر لگتا ہے
عمر کھا جاتی ہے منزل کی مسافت ہمدم
زندگی مجھ کو کٹھن تیرا سفر لگتا ہے
ایک سنسان محلہ ہے مرا سینہ اور
اس محلے میں یہ دل قیس کا گھر لگتا ہے
جھک کے چلتا ہوں تو کمزور نہ سمجھو مجھ کو
شاخ جھکتی ہے وہی جس پہ ثمر لگتا ہے
خود میں جھانکا تو کھلا مجھ پہ کہ دنیا میں کیوں
ایک انسان کو انسان سے ڈر لگتا ہے
حسن نظروں میں نہیں تیری وگرنہ دیکھے
میرا محبوب مجھے رشک قمر لگتا ہے
میرے شعروں پہ سبھی واہ کیے جاتے ہیں
کون سمجھے گا مرا خون جگر لگتا ہے
جنگ جیتو گے عدیلؔ اس سے وفا کی کیسے
جس کا ہر عیب زمانے کو ہنر لگتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.