پھولوں کی برسات ہوئی ہے اور کچھ پتھر آئے ہیں
پھولوں کی برسات ہوئی ہے اور کچھ پتھر آئے ہیں
اس بستی میں ہم دیوانے سوچ سمجھ کر آئے ہیں
حق نے شاید باطل کی بیعت سے پھر انکار کیا
آج سنا ہے بازاروں میں نیزوں پر سر آئے ہیں
میخانے میں شیخ حرم کو دیکھا تو موجود ملے
کس میں دم ہے پوچھ سکے کیوں آپ یہاں پر آئے ہیں
چند قدم پر بیٹھ گئے تھک کر منزل کے شیدائی
چہرے سے ایسا لگتا ہے میلوں چل کر آئے ہیں
صحرا صحرا گھوم رہے تھے تعبیروں کے چکر میں
بکھرے ہوئے سب خواب ملے ہیں لوٹ کے جب گھر آئے ہیں
اس کی انا نے پیاس کے عالم میں مرنا منظور کیا
ورنہ اس کے ہونٹوں تک خود کھنچ کے سمندر آئے ہیں
غیر شعوری طور پہ ان کے لب پہ مرے اشعار رہے
خبر ملی ہے ناظمؔ ایسے موقع اکثر آئے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.