سدا رہے گی یہی روانی رواں ہے پانی
بہاؤ اس کا ہے جاودانی رواں ہے پانی
بہاؤ میں بہہ رہے ہیں موسم نگاہ منظر
بہائے جاتا ہے سب کو پانی رواں ہے پانی
کبھی تھے ان راستوں میں قریے مکان چہرے
یہ داستاں ہے مگر پرانی رواں ہے پانی
نہ اب وہ ساحل نہ اب وہ ہستی نہ وہ فصیلیں
نہ اس زمیں کی کوئی نشانی رواں ہے پانی
وہاں وہ اقلیم جس پہ سکہ رواں تھا اپنا
یہاں ہواؤں کی حکمرانی رواں ہے پانی
وہ رات دن بھی اسی روانی میں بہہ چکے ہیں
بکھر چکیں وہ رتیں سہانی رواں ہے پانی
یہاں میں دہرا رہا ہوں پہلے سفر کی باتیں
مگر کہاں اب وہ شادمانی رواں ہے پانی
یہ اشک دھندلا رہے ہیں پیہم مٹا رہے ہیں
نگاہ میں یاد کی کہانی رواں ہے پانی
وہ محفلیں ہیں نہ اب وہ ساتھی رہے ہیں باقی
نہ اب وہ بچپن نہ وہ جوانی رواں ہے پانی
- کتاب : meyaar (Pg. 353)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.