شکوہ گر کیجے تو ہوتا ہے گماں تقصیر کا
شکوہ گر کیجے تو ہوتا ہے گماں تقصیر کا
ہر جفا سے باب کھلتا ہے نیا تعزیر کا
اس سے پیہم گفتگو کیجے کبھی برہم نہ ہو
اصل پر بھاری ہے پہلو آپ کی تصویر کا
دل کے در پے ہیں یہ دونوں رشتۂ ہمسائیگی
گیسوئے شبگیر سے ہے فکر دامن گیر کا
جور سے گھبرانے والے ہم نہیں ہیں دیکھیے
حوصلہ کب تک جواں رہتا ہے چرخ پیر کا
کس لیے خواب زلیخا تشنۂ تعبیر ہے
مصر میں شہرہ بہت یوں تو ہوا تعبیر کا
گھولتے ہیں کس لیے وہ چشمۂ حیواں میں زہر
کام لیتے ہیں تبسم سے وہ کیوں تحقیر کا
کاش میری کہہ رہے ہیں سبزہ و دشت و دمن
لالہ و برگ و سمن عالم ہے یہ کشمیر کا
ناز سے دیکھا ہے خالق نے مٹاتے بارہا
ناخن تدبیر کو لکھا ہوا تقدیر کا
خاک سے کر خاکساری سے ریاضت سے عرق
آرزو کی آنچ دے نسخہ ہے یہ اکسیر کا
حسرتوں سے اس طرح رہ رہ کے ہوتی ہے خلش
ٹوٹ جائے لگ کے دل میں جیسے پیکاں تیر کا
شعر میں اقبالؔ کا شیدا ہے غالبؔ کا اسیر
حامدؔ بے بہرہ گو منکر نہیں ہے میر کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.