تارے کہ سانس سانس میں تھے تا سحر جلے
تارے کہ سانس سانس میں تھے تا سحر جلے
ہاتھوں میں پھول زیر سمندر گہر جلے
شاید کوئی شرر تھا خس جسم میں نہاں
اپنی ہی انتہا میں ہمیں بے خبر جلے
وہ مست ہوں کہ خواب و زیاں کی خبر نہیں
وہ گرم پا کہ دشت میں سمت و سفر جلے
وہ لو ہوں جو اندھیرے کے سینے کا داغ ہے
وہ دم کہ گھونسلے میں پرندے کے پر جلے
وہ تند ہوں کہ یاروں میں تلخی مجھی سے ہے
وہ سوختہ ہوں گھر میں رہوں میں تو گھر جلے
وہ اشک ہوں کہ جس کی جگہ آنکھ میں نہیں
ٹپکوں اگر تو زیر سمندر گہر جلے
یوں کل ترے خیال نے گڈمڈ کیا ہمیں
بستر میں چاند اور بدن بام پر جلے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.