تاروں سے بھری راہ گزر لے کے گئی ہے
تاروں سے بھری راہ گزر لے کے گئی ہے
یہ صبح چراغوں کا نگر لے کے گئی ہے
تم کو تو پتہ ہوگا کہ ہم راہ تمہیں تھے
دنیا مرے خوابوں کو کدھر لے کے گئی ہے
پیاسے تھے تو پانی کو پکارا تھا ہمیں نے
ندی ادھر آئی ہے تو گھر لے کے گئی ہے
اک منزل بے مقصد و بے نام کی خواہش
کانٹوں کی سواری پہ سفر لے کے گئی ہے
بے بال و پری اب بھی سر دشت ہے محفوظ
آندھی تو فقط برگ و ثمر لے کے گئی ہے
شاید کہ اب آئے تری قربت کی نئی فصل
اس بار دعا باب اثر لے کے گئی ہے
چمکے گا ابھی زیور شہزادئ مہتاب
اس تک وہ مرے شب کی خبر لے کے گئی ہے
- کتاب : paalkii kahkashaa.n (Pg. 110)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.