طلب ہو صبر کی اور دل میں آرزو آئے
طلب ہو صبر کی اور دل میں آرزو آئے
غضب ہے دوست کی خواہش ہو اور عدو آئے
تم اپنا رنگ بدلتے رہو فلک کی طرح
کسی کی آنکھ میں اشک آئے یا لہو آئے
تری جدائی سے ہے روح پر یہ ظلم حواس
میں اپنے آپ میں پھر کیوں رہوں جو تو آئے
ریا کا رنگ نہ ہو مستند ہیں وہ اعمال
کلام پختہ ہے جب درد دل کی بو آئے
لبوں کا بوسہ جسے مل گیا ہو وہ جانے
قدم تو اس بت بے دیں کے ہم بھی چھو آئے
کھلی جو آنکھ جوانی میں عشق آ پہنچا
جو گرمیوں میں کھلیں در تو کیوں نہ لو آئے
وہ مے نصیب کہاں ان ہوس پرستوں کو
کہ ہو قدم کو نہ لغزش نہ منہ سے بو آئے
- کتاب : ہنگامہ ہے کیوں برپا (Pg. 61)
- Author : اکبر الہ آبادی
- مطبع : ریختہ بکس (2023)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.