تشنگی وہ تھی کہ جو روح تک آئی نہ گئی
تشنگی وہ تھی کہ جو روح تک آئی نہ گئی
جسم کی پیاس لبوں سے بھی بجھائی نہ گئی
میں نے ہر سمت ہی دیکھا ہے اسے جان بہار
گردش وقت کی تصویر گھمائی نہ گئی
ہائے وہ خون کے پیاسے ہیں انہیں کیا معلوم
لاش ماں باپ کی بچوں سے اٹھائی نہ گئی
ایک دن باغ طلسمات میں دیکھا میں نے
سبز پیڑوں کو کوئی بات سنائی نہ گئی
بارہا دیکھا ہے یک طرفہ تماشا میں نے
خاک اس دشت نوردی میں اڑائی نہ گئی
ہم نے کوشش تو بہت کی تھی مگر ہم سے اے دوست
اک تری یاد تھی جو ہم سے بھلائی نہ گئی
اس کی تمثیل گری دیکھ کے اندازہ ہوا
ہم سے کیوں خاک بسر زیست کمائی نہ گئی
ان کے قدموں کی میں آہٹ سے ہی پہچان گئی
در و دیوار کو آواز لگائی نہ گئی
سب نے اس ملک کو لوٹا ہے مہارت سے عمودؔ
حکمرانوں سے یہی بات چھپائی نہ گئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.