وحشت ہجر ہے اندیشۂ تنہائی ہے
وحشت ہجر ہے اندیشۂ تنہائی ہے
باب ہستی کا عجب قصۂ تنہائی ہے
جس طرف دیکھتا ہوں سایۂ تنہائی ہے
آخرش تا بہ کجا حیطۂ تنہائی ہے
وہ کہ جس قبر پہ میلہ سا لگا رہتا تھا
آج خستہ سا وہاں کتبۂ تنہائی ہے
پھر سے اک بار وہی جرم کیا ہے میں نے
پھر سے اک بار مجھے خدشۂ تنہائی ہے
میں تو بس معنیٔ مصداق اسی لفظ کا ہوں
مصحف زیست میں جو صیغۂ تنہائی ہے
عالم وصل کی لذت سے میں واقف ہی کہاں
میرے حصے میں تو بس گوشۂ تنہائی ہے
آج کل نیند سے اس طرح میں چونک اٹھتا ہوں
جیسے خوابوں پہ بھی اب قبضۂ تنہائی ہے
عشق کا ایک جزیرہ ہے مرا دل ثاقبؔ
اور پھر اس میں فقط موجۂ تنہائی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.