وصل کی رات میں ہم رات میں بہہ جاتے ہیں
وصل کی رات میں ہم رات میں بہہ جاتے ہیں
وصل کب کرتے ہیں جذبات میں بہہ جاتے ہیں
آب جو ہم ہیں پہ دریا کے ہمارے سبھی خواب
رد تعبیر کی برسات میں بہہ جاتے ہیں
بار بار آتے ہیں ہم اپنے حمل میں لیکن
شہر کی سازش اسقاط میں بہہ جاتے ہیں
جسم کے اپنے بھی جادو ہیں پہ کچے ہیں ابھی
روح کی مشق طلسمات میں بہہ جاتے ہیں
تہہ دریائے کرم دیر سے کھلتی ہے سو ہم
اوپر اوپر کی عنایات میں بہہ جاتے ہیں
ختم مجلس پہ نہ آیا کبھی رونا ہم کو
سارے آنسو تو شروعات میں بہہ جاتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.