وہ صبح وصل کر کے پریشان بھی گیا
وہ صبح وصل کر کے پریشان بھی گیا
لیکن ردائے وعدۂ شب تان بھی گیا
اک بار میں سفارش اشک و دعا کے بعد
اس انجمن میں بے سر و سامان بھی گیا
رخصت ہوا ہے دل سے تمہارا خیال بھی
اس گھر سے آج آخری میہمان بھی گیا
ایسا کہاں وہ ماننے والا تھا میری بات
بادل امڈ کے آئے ہیں تو مان بھی گیا
بہکا رہا ہے کون مجھے یوں ترے خلاف
اک مرتبہ خود اپنی طرف دھیان بھی گیا
کیا کر سکے گا شہر کہ مرنے سے پیشتر
گر اپنے قاتلوں کو میں پہچان بھی گیا
دشمن کے دل میں اب بھی ہے دہشت مری جمالؔ
ہر چند میرے ہاتھ سے میدان بھی گیا
- کتاب : اکیلے پن کی انتہا (Pg. 121)
- Author :جمال احسانی
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2018)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.