یہ بھی گزرے ہوئے بادل کی ہے ترسائی ہوئی
یہ بھی گزرے ہوئے بادل کی ہے ترسائی ہوئی
جا رہی ہے جو ندی کھیتوں سے شرمائی ہوئی
ذہن شاعر کا نئی صبحوں کے سورج کی کرن
جیسے سوکھے ہوئے ہونٹھوں پہ ہنسی آئی ہوئی
اب میں یہ سوچ کے رک جاؤں تو جل جاؤں گا
کہ ہے یہ آگ کسی اور کی بھڑکائی ہوئی
کیا چھپا رکھا ہے دیواروں نے خوشبو کہ چراغ
کیوں منڈیروں پہ ہوا پھرتی ہے گھبرائی ہوئی
لیجیے مجھ سے بھی پیمان وفا چاہتی ہے
یہی دنیا مرے اجداد کی ٹھکرائی ہوئی
- کتاب : ہوشیاری دل نادان بہت کرتا ہے (Pg. 78)
- Author :عرفان صدیقی
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2023)
- اشاعت : 2nd
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.