یہ جو بازار میں پھیلے ہوئے ہیں
یہ جو بازار میں پھیلے ہوئے ہیں
سب اپنے کمروں میں سمٹے ہوئے ہیں
دکھا سکتے ہیں داناؤں کو رستہ
میاں ہم عشق میں اندھے ہوئے ہیں
ترا بازار کیسے چھوڑ جائیں
یہیں مہنگے یہیں سستے ہوئے ہیں
تری کاپی کتابوں کی بدولت
مرے پرچہ بہت اچھے ہوئے ہیں
تمہاری آنکھوں نے کچھ کہہ دیا ہے
تمناؤں کے منہ پھولے ہوئے ہیں
کہیں ٹھوکر نہ لگ جائے زمیں پر
ستارے ذہن میں رکھے ہوئے ہیں
بناتے رہتے ہیں جنت کے نقشے
تری گلیوں میں جو بھٹکے ہوئے ہیں
وہ پیالے ہوں کہ مٹکے ہوں کہ کوزے
سبھی اک چاک سے اترے ہوئے ہیں
- کتاب : ہجر کی دوسری دوا (Pg. 47)
- Author : فہمی بدایونی
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2022)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.