زمیں صحرا کی اک اک بوند کی خاطر ترستی ہے
زمیں صحرا کی اک اک بوند کی خاطر ترستی ہے
تو اے برسات کیوں جا کر سمندر پر برستی ہے
نہ اونچا آسماں تیرا نہ نیچی ہے زمیں میری
فقط اک فاصلہ ہے بس بلندی ہے نہ پستی ہے
ہمیں اے شیخ ہر بت میں خدا کا نور دکھتا ہے
ہماری بت پرستی در حقیقت حق پرستی ہے
یہاں ہر اک قدم پر موت کا سامان بکھرا ہے
درندو مت یہاں آنا یہ انسانوں کی بستی ہے
کھلے جو راز ہستی تو نہ جانے کیا ہو ہنگامہ
ہے ہستی تب تلک جب تک نہاں یہ راز ہستی ہے
امیری کا ہو عالم اے صداؔ یا تنگ دستی کا
رضا میں اس کی رہنا سیکھ پھر مستی ہی مستی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.