تپش کشمیری
مجھے ان کا اصل نام ابھی تک معلوم نہیں۔۔۔ حالانکہ میں ان کو بارہ برس سے جانتا ہوں۔۔۔ سات برس تو ہم اکٹھے ایک ساتھ رہے۔۔۔ دراصل ان کا نام پوچھنے کی مجھے کبھی ضرورت ہی محسوس نہ ہوئی۔۔۔ تپش کاشمیری کافی تھا۔۔۔ وہ اس نام سے مشہور تھے۔
تپش کاشمیری عجیب وغریب شخصیت کے مالک تھے۔ جب وہ لاہور میں تھے تو ضلع کچہری کی ایک عدالت میں اہلمد تھے۔ آپ نے ترقی کی طرف قدم بڑھایا تو آپ پیادہ ہوگئے۔۔۔ اس ترقیِ معکوس کاان پر کچھ اثر نہ ہوا اور وہ ہر حالت میں خوش رہتے تھے۔ جس مجسٹریٹ سے وہ منسلک تھے، اس کی روز ہجو لکھتے اور کاغذ اسی کے میز پر رکھ آتے۔۔۔ وہ چیختا چلاتا۔۔۔ مگر تپش صاحب خاموش رہتے، جیسے ان کو کسی بات کا علم ہی نہیں۔۔۔ فی البدیہہ شعر کہنے میں مہارتِ تامہ رکھتے تھے۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے، بمبئی میں ایک ناگپوری شاعر نے جو بزعمِ خود فی البدیہہ شعر کہنے میں۔۔۔ ظفر علی خان سے کئی مصرعے آگے تھے، تپش صاحب سے کہا، ’’حضرت! چلو، آج گفتگو شعروں ہی میں ہو۔۔۔‘‘
تپش صاحب نے بڑی انکساری کے ساتھ کہا، ’’جیسے آپ کی مرضی۔۔۔‘‘
اور ساتھ ہی گفتگو کا آغاز ایک شعر سے کر دیا۔۔۔ ناگپوری شاعر سٹ پٹا گئے اور ذہن پر زور دے کر تپش صاحب کے اس شعر کا جواب شعر میں فکر کرنے لگے۔ تپش صاحب نے فوراً ایک اور شعر گڑھ کر ان سے پوچھا کہ جناب دیر کیوں لگا رہے ہیں۔۔۔ جلدی گفتگو شروع کیجیے۔ ناگپوری شاعر بوکھلا گیا۔ میرا خیال ہے ان کے اس استفسار سے اس کے دماغ سے وہ سب کچھ نکل گیا جو اس نے بڑی محنت سے سوچا تھا۔ تپش صاحب نے اس پر تین چار شعر اور چست کر دیے، وہ اور بیچارہ ناگپوری چاروں خانے چت ہوگیا۔
میں یہاں پر عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ تپش صاحب کی شاعری میں کوئی جان نہیں۔۔۔ یوں تو ان کا ہر شعر بڑا جچا تلا ہوتا ہے، عروض کی کوئی خامی نہیں ہوتی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دھرم کانٹے میں تل کر آیا ہے۔ بڑی سنگلاخ زمینوں میں طبع آزمائی کرتے ہیں اور قریب قریب ہر روز دو تین غزلیں یانظمیں فی البدیہہ لکھتے ہیں، لیکن شاذو نادر ان کے قلم سے کوئی ایسا شعر نکلتا ہے جو صحیح معنوں میں شعر کہلانے کا مستحق ہو۔
انھوں نے بلا مبالغہ دس بارہ لاکھ شعر لکھے ہوں گے مگر اس کو وہ باعث افتخار نہیں سمجھتے۔ وہ خود کو بھی شاعر کہلانا پسند نہیں کرتے، ان کو اپنی شاعری سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
پیشتر اس کے کہ میں کچھ اور بیان کروں، میں تپش صاحب کی عجیب و غریب شخصیت کے بارے میں چند اور باتیں بھی بتانا چاہتا ہوں جو بہت دلچسپ اور حیرت انگیز ہیں۔
ایک زمانہ تھا وہ لاہور کے ضلع کچہری میں ملازم تھے۔ ایک وقت ایسا آیا کہ ان کو اسلامیہ اسکول کے ایک لڑکے سے عشق ہوگیا۔ بڑا افلاطونی قسم کا۔ ان کو معلوم ہوا کہ یہ لڑکا نماز پڑھتا ہے۔ صبح سویرے اپنے محلے کی مسجد میں فجر کی نماز ادا کرنے جاتا ہے۔ یہ معلومات حاصل ہوتے ہی آپ صبح تین بجے اٹھتے۔ سخت سردیوں کا موسم تھا۔ مسجد میں جاکر جھاڑو دیتے۔ پھر ٹھنڈے یخ پانی سے غسل کرتے اور اذان دینا شروع کردیتے۔ مسجد کا ملا جو بہت ہی بڈھا اور سست تھا، اپنے حجرے میں چونک پڑتاکہ یہ اذان کون دے رہا ہے۔ جب تک وہ اٹھ کر باہر نکلتا تپش صاحب نے امامت شروع کر دی ہوتی تھی۔ وہ لڑکا ان کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہوتا، اس سے ان کو بڑی روحانی مسرت حاصل ہوتی تھی۔ یہ سلسلہ کافی دیر تک جاری رہا۔
ایک مرتبہ اس لڑکے کی سائیکل خراب ہوگئی۔ اس نے اپنے نوکر کو دی کہ ٹھیک کرا لائے۔۔۔ تپش صاحب نے دیکھ لیا۔۔۔ اور سائیکل نوکر سے لے کر ایک دکان پر لے گئے۔ اس کے تمام پرزے علیحدہ کر دیے۔ مٹی کے تیل میں ڈبو کر ان کو صاف کیا۔۔۔ دکاندار سے جو ان کا دوست تھا کپڑا مانگا کہ وہ انھیں خشک کریں۔۔۔ مگر اس کے پاس نہیں تھا۔ چنانچہ تپش صاحب نے اپنی نئی بوسکی کی قمیص اتاری، اس کو پھاڑا اور تمام پرزوں پر سے تیل خشک کر کے ان کو خوب چمکایا۔ جب سائیکل ٹھیک ہوگئی تو اس لڑکے کے نوکر کے حوالے کر دی اور کہا:
’’دیکھو۔۔۔ بابوجی سے مت کہنا کہ میں نے ٹھیک کی ہے۔‘‘ اس لڑکے کی دوستی اسی دوران میں اپنے ایک ہم جماعت سے ہوگئی۔ تپش صاحب کو اس کا اتنا دکھ ہوا کہ نیم پاگل سے ہو گئے۔ داڑھی بڑھالی۔ سخت گرمیاں تھیں۔۔۔ مگر آپ اوور کوٹ پہنتے تھے۔۔۔ سرپر پانامہ ہیٹ اور چھینٹ کی نیکر میں۔۔۔ پاؤں میں فل بوٹ۔۔۔ لیکن ان کی باتیں جب بھی غیر متوازن نہیں ہوتی تھیں۔
اس زمانے میں انھوں نے اس لڑکے کے بارے میں بے شمار شعر کہے جو شعر کہلانے کے مستحق ہیں، اس لیے کہ ان میں تپش صاحب کے دل کو جو ٹھیس پہنچی تھی، اس کا صاف پتہ چلتا ہے۔ ان میں درد ہے کسک ہے اور افلاطونی عشق کی تمام گہرائیاں بھی موجود ہیں۔ یوں بھی تپش صاحب کو دنیوی معاملات سے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی، لیکن اس حادثے کے بعد وہ بالکل بے نیاز ہوگئے۔ کھانا ملا ہے تو کھا لیا ہے، نہیں ملا تو کوئی پروا نہیں۔
مجھے ایک لطیفہ یاد آگیا۔۔۔
ہم لاہور کے حاجی ہوٹل میں بیٹھے تھے۔ تپش صاحب کھانا کھا چکے تھے، لیکن مجھے کھانا تھا۔ وہ میرے پاس بیٹھے تھے کہ اتنے میں ان کے چند دوست آئے جو پاس والے میز پر بیٹھ گئے۔ ان میں سے ایک نے تپش صاحب سے علیک سلیک کرنے کے بعد کہا، ’’آئیے کھانا تناول فرمائیے۔‘‘
تپش صاحب نے شکریہ ادا کیا، ’’خدا آپ کو بہت بہت دے۔۔۔ میں گھر سے کھا کر آیا ہوں۔‘‘
ان کے دوست نے بڑا اصرار کیا کہ وہ ضرور کھائیں۔ آخر تنگ آکر وہ ان کے پاس بیٹھ گئے اور بارہ روٹیاں اور سالن کی دو پلیٹوں کا آرڈر دیا۔ اس کے بعد فیرینی کی چار پلیٹیں کھائیں اور خدا کا شکر ادا کر کے وہاں سے اٹھے اور میرے پاس چلے آئے۔۔۔ ان کے اس دوست کی حالت قابل رحم تھی جس نے ازراہِ تکلف ان کو دعوت دی تھی۔ وہ بالکل مبہوت تھا، وہ شاید اس لمحے پر لعنتیں در لعنتیں بھیج رہا تھا۔۔۔ جب اس نے تپش صاحب سے کہا، ’’آئیے! کھانا تناول فرمائیے۔۔۔‘‘
میرا خیال ہے کہ تپش صاحب میں ذائقے کی حس موجود نہیں تھی۔ وہ ہر چیز کھا سکتے تھے۔ تھوہر اور کیلے میں ان کے نزدیک کوئی فرق نہیں تھا۔ کچے چاول ہوں یا ابلے ہوئے۔۔۔ تازہ ہوں یا پانچ چھ روز کے باسی، ان کے لیے ایک جیسے تھے۔ میں نے کبھی ان کو کسی چیز کے بارے میں شکایت کرتے نہیں سنا۔۔۔ جو مل جائے ٹھیک ہے۔۔۔ لیکن حیرت ہے کہ اس قسم کی تپک طبیعت کا مالک جو فالودے میں کھیر، نمکین، چائے اور نیلوفر کا شربت ملا کر پی جاتا، تمام سبزیاں پتوں اور ڈنٹھلوں سمیت کھاتا ہے، ایک ایک پاؤ سرخ مرچیں پھانک جاتا ہے، اپنی صحت کیسے برقرار رکھ سکتا ہے۔
ان کی صحت قابل رشک حد تک اچھی تھی۔۔۔ سرخ رنگت، سر کا ایک بال بھی سفید نہیں ہوا تھا۔۔۔ حالانکہ وہ مجھ سے عمر میں سات آٹھ برس بڑے تھے۔ یعنی چھیالیس سینتالیس برس کے لگ بھگ تھے، مگر ان کے مقابلے میں مَیں بوڑھا دکھائی دیتا تھا۔ میرے سر کے بال آدھے سے زیادہ سفید ہوچکے تھے۔
تپش صاحب کو عورتوں سے کوئی رغبت نہیں تھی۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ صنفِ نازک سے صنفِ کرخت کو کوئی واسطہ نہیں ہونا چاہیے۔ شیشے کا رشتہ پتھر سے غیر فطری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنی بیوی کو جس کو انھوں نے کبھی گھر میں بسایا ہی نہیں تھا۔۔۔ آخر اسے طلاق دے کر آزاد کر دیا۔ جب میرے بلانے پر بمبئی آئے تو وہ اپنی بیوی کو طلاق دے کر آئے تھے۔ مجھ سے انھوں نے اس بات کا ذکر بہت دیر بعد میں کیا۔۔۔ کیونکہ ان کے خیال کے مطابق یہ کوئی اتنی اہم بات نہیں تھی۔ لیکن اس کا ردِ عمل ان پر اس صورت میں نمودار ہوا کہ انھوں نے باقاعدہ قرآن مجید کی تلاوت شروع کردی۔۔۔ مگر ان کی تلاوت کا طریقہ بھی عجیب و غریب ہے۔ میں نے ایک روز دیکھا کہ وہ صبح سویرے اٹھے، غسل کیا اور الف ننگے، بدن خشک کیے بغیر کرسی پر بیٹھ گئے۔ حمائل شریف نکالی اور تلاوت شروع کردی۔۔۔ ایک پارہ پڑھا۔۔۔ کپڑے پہنے اور باہر نکلے۔ میں حیرت میں گم تھا کہ آخر یہ سلسلہ کیا ہے؟
کہیں ان کا دماغ تو نہیں چل گیا ہے لیکن میرا خیال غلط ثابت ہوا۔ باہر نکل کر انھوں نے ٹرام کی ایک ٹکٹ پر نظم لکھی۔ مجھ سے بڑی پر مغز گفتگو کی۔ میری زبان کی چند غلطیوں کی طرف میری توجہ دلائی۔ میرے دماغ میں چونکہ بڑی کھد بد ہو رہی تھی، اس لیے میں ان سے پوچھے بغیر نہ رہ سکا۔
’’تپش صاحب۔۔۔ آپ ننگے۔۔۔ ننگے بدن قرآن مجید کی تلاوت کیوں کرتے ہیں؟ کیا یہ معیوب نہیں۔۔۔ ؟‘‘
تپش صاحب مسکرائے، ’’قرآن میں کہیں بھی یہ حکم صادر نہیں کیا گیا کہ آدمی تینوں کپڑے پہن کر اس کی تلاوت کرے۔۔۔ میں اس لیے کپڑے نہیں پہنتا کہ مبادا ان میں کوئی گندگی کی آلائش ہو۔۔۔ نہانے کے بعد میں تو لیے سے اپنا بدن بھی اسی لیے خشک نہیں کرتا۔‘‘ عجب منطق تھی۔ بہر حال، میں خاموش رہا کیونکہ ان سے بات کرنا ایک اچھی خاصی طویل بحث کا آغاز کرنا تھا۔
اسی دوران میں انھیں تپِ محرقہ ہوگیا۔۔۔ میں نے ڈاکٹر کو بلایا۔ سولہ روپے اس کی فیس ادا کی۔۔۔ مگر تپش صاحب نے اس ڈاکٹر سے بڑے کرخت لہجہ میں کہا، ’’صاحب! آپ کو یہاں کس نے بلایا ہے۔۔۔ مجھے معلوم ہے میرا عارضہ کیا ہے اور مجھے اس کا علاج بھی معلوم ہے۔۔۔ آپ تشریف لے جائیں تو بہتر ہے۔‘‘ ڈاکٹر صاحب تشریف لے گئے۔۔۔ تپش صاحب نے اکیس دن فاقہ کشی کی، کچھ کھایا نہ پیا۔۔۔ اس کے بعد انھوں نے مجھے بلایا اور کہا، ’’میں اب بالکل ٹھیک ہوگیاہوں۔۔۔ نوکر کو چوپاٹی بھیجو اور آٹھ آنے کا رگڑا منگواؤ۔۔۔ ڈھیر ساری مرچیں ہوں۔‘‘
رگڑا بمبئی کی زبان میں چاٹ کو کہتے ہیں۔۔۔ یعنی آلو چھولے۔
میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ خوف ناک چیزیں منگواؤں یا نہ منگواؤں، مگر تپش صاحب کے آگے کیا پیش چل سکتی تھی، آخر میں نے نوکر کو چوپاٹی بھیجا اور رگڑا منگوایا جو تپش صاحب نے سب کا سب کھا لیا۔ میرا خیال ہے کہ اس میں اتنی مرچیں اور اتنی کھٹائی تھی جو بیس بائیس آدمیوں کو بھی پیچش یا اسہالِ معدہ میں گرفتار کر دیتی۔ لیکن تعجب ہے کہ دوسرے روز وہ بالکل ٹھیک ٹھاک تھے۔۔۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ انھیں تپِ محرقہ کبھی ہوا ہی نہیں تھا۔۔۔ میں نے جب اپنی حیرت کا اظہار کیا تو انھوں نے مجھ سے کہا:
’’برادرم! ہر بیماری کے لیے علاج ہوتے ہیں۔۔۔ ضروری نہیں کہ ہر شخص اپنے مرض کاعلاج کسی ڈاکٹر حکیم ہی سے کرائے۔۔۔ خدا نے ہر آدمی کو اپنے عوارض دور کرنے کی صلاحیت ودیعت فرمائی ہے۔۔۔ وہ اگر اس سے کا م لے تو ڈاکٹروں اور طبیبوں کی ضرورت ہی نہیں۔‘‘ وہ بالکل ٹھیک ٹھاک ہوگئے۔۔۔ ان کا رنگ جو کسی قدر پیلا ہو گیا تھا، چند روز میں رگڑا کھا کھا کر پھر وہی سرخی اختیار کر گیا۔ آپ نے پھر اسی طرح ہر روز نظمیں اور غزلیں کہنا شروع کردیں۔۔۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ کبھی بیمار ہی نہیں ہوئے۔
بہت دن گزر گئے۔ میرا مطلب ہے قریب قریب ڈھائی مہینے کا عرصہ بیت گیا۔۔۔ اس کے بعد ایک دن اچانک تپش صاحب نے مجھ سے کہا، ’’میں آپ کے یہاں ٹھہرنا مناسب نہیں سمجھتا۔‘‘
میں نے حیرت سے پوچھا، ’’کیوں؟‘‘
’’کسی دوست کو زیادہ دیر تک تکلیف نہیں دینا چاہیے۔‘‘
میں نے ان سے کہا، ’’مجھے کوئی تکلیف نہیں۔۔۔ آپ محض تکلف کر رہے ہیں۔‘‘
تپش صاحب جس بات کا تہیہ کر لیں۔۔۔ بالآخر وہ پوری ہوتی ہے، چنانچہ وہ اپنا چھوٹا سا ٹین کا بکس اٹھا کر میرے گھر سے چلے گیے۔ معلوم نہیں کہاں۔۔۔ اگر انھوں نے اپنے ٹھکانے کے متعلق مجھے کچھ بتایا ہوتا تو میں یقیناً ہر روز نہیں تو دوسرے تیسرے روز ضرور جاتا۔۔۔ مگر وہ اس افراتفری میں گیے کہ میں ان سے کچھ پوچھ نہ سکا۔ ایک دن وہ خود آئے۔۔۔ خلافِ معمول نیا سوٹ پہنا ہواتھا۔۔۔ بالوں میں تیل بھی تھا۔۔۔ مجھ سے ملتے ہی کہنے لگے، ’’برادرم! مجھے افسوس ہے کہ اتنے عرصے تمہارےپاس نہ آ سکا، مجھے عشق ہوگیا تھا، دراصل۔‘‘
میں چکرا گیا۔۔۔ تپش صاحب اور عشق۔۔۔ کیا اس لاہوری لڑکے کا کوئی نعم البدل بمبئی میں پیدا ہو گیا ہے۔ تپش صاحب نے مجھے زیادہ دیر تذبذب میں نہ رکھا اور اپنے عشق کی روداد سنا دی۔۔۔ مجھے یہ معلوم کر کے بڑی حیرت ہوئی کہ انہیں ایک لڑکی سے عشق ہوا تھا۔ یہ لڑکی ایک مجاور کی بیٹی تھی۔ اس کی ماں مرچکی تھی۔ تپش صاحب وکٹوریہ گارڈن میں اس کو اپنے ساتھ لائے اور مجھے مجبور کیا کہ اس کا فوٹو اتارا جائے۔ چنانچہ ان کے احکام کے مطابق میں اپنے ایک دوست سے کیمرہ لے کر پہنچا۔۔۔ لڑکی خوبصورت تھی۔۔۔ بڑی الہڑ قسم کی۔۔۔ تپش صاحب سے بہت جھینپتی تھی۔ اس سے زیادہ مجھ سے، اور اس سے بھی زیادہ ارد گرد کے ماحول سے۔۔۔
خیر، میں نے چار پانچ پوز لیے۔۔۔ اور وکٹوریہ گارڈن میں ان دونوں کو چھوڑ کر گھر چلا آیا۔۔۔ میرے دل و دماغ بہت مضطرب تھے۔ میرے قیاس میں کبھی یہ چیزآہی نہیں سکتی تھی کہ تپش کاشمیری صاحب کبھی کسی عورت میں دلچسپی لیں گے۔ لیکن جیسا کہ مجھے بعد میں معلوم ہوا، وہ اس لڑکی سے جس کا نام مجھے یاد نہیں آرہا، والہانہ محبت کرتے تھے۔ میں نے ایک روز ان سے کہا، ’’تپش صاحب اتنی دیر ہوگئی ہے آپ اس سے شادی کیوں نہیں کر لیتے؟‘‘ انھوں نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا، ’’میں روپیہ جمع کر رہا ہوں۔۔۔ اس کے باپ سے تمام باتوں کا فیصلہ ہو چکا ہے۔۔۔
میں نے اس کے بھائی کے لیے ایک سوٹ بنوا دیا ہے، باپ کو بھی کچھ روپے دے چکا ہوں، اس لیے کہ اس کے پاس شادی کے اخراجات کے لیے کچھ بھی نہیں۔۔۔ ایک صوفہ سیٹ۔۔۔ ایک ڈریسنگ ٹیبل اور چار کرسیاں بھی خرید کر اس کے باپ کے حوالے کر دیں۔۔۔ میں چاہتا ہوں شادی کے بعد انھی کے ساتھ رہوں۔۔۔ وہ اداس نہیں ہوگی۔‘‘
میں نے کہا، ’’یہ بہت اچھا اور نیک خیال ہے۔‘‘ تپش صاحب ذرا پھول سے گئے، ’’میں حرام کاری کا قائل نہیں۔۔۔ اس سے باقاعدہ عقد کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ میں نے ان سے اس خدشے کا ذکر کیا جو اچانک میرے دماغ میں پیدا ہوگیا تھا، ’’ہو سکتا ہے۔۔۔ کوئی اور۔۔۔ میرا مطلب ہے، کوئی اور آپ پر بازی لے جائے۔۔۔‘‘ تپش صاحب کے گال اور زیادہ سرخ ہوگئے۔
’’کون بازی لے جا سکتا ہے مجھ پر۔۔۔ میں شاعر ہوں۔۔۔ لیکن اور۔۔۔ درے کا منڈا بھی ہوں، میں قلم کے علاوہ لٹھ سے بھی کام لینا جانتا ہوں۔۔۔‘‘
تپش صاحب گھر بنانے کی فکر میں مصروف تھے کہ اس لڑکی کا معاشقہ ایک نوجوان پہلوان سے ہوگیا۔۔۔ اسی دوران میں لڑکی کے باپ کو ہیضہ ہوا اور وہ دو دن کے بعد ہی راہیِ ملکِ عدم ہوا۔ تپش صاحب نے اس کی تجہیزو تکفین کا سامان کیا۔۔۔ بڑے احترام سے اس کو دفن کیا۔
چوتھے روز انہیں معلوم ہوا کہ لڑکی اسی نوجوان پہلوان کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔۔۔ یہ انہیں عین اس وقت معلوم ہوا جب وہ کھیت واڑی اسٹریٹ سے نکلے تھے۔ تپش صاحب نے سائیکل کرائے پر لی اور اس موٹر کا تعاقب کیا جس میں پہلوان اس لڑکی کو اغوا کرکے لے جا رہا تھا۔
تپش صاحب نے ان کو پکڑ لیا ہوتا۔۔۔ مگر ان کی سائیکل ایک وکٹوریہ گاڑی کی جھپٹ میں آگئی۔۔۔ آپ بہت بری طرح زخمی ہوئے، دائیں کلائی کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ دوستوں نے انہیں ہسپتال میں داخل کرا دیا۔
چوٹ اتنی اثر انداز ہوئی کہ وہ کئی دن بیہوش رہے۔ ان کا بازو پلاسٹک میں بندھا ہوا تھا۔۔۔ ہلنے جلنے کی اجازت نہیں تھی۔ پر جب انہیں ذرا ہوش آیا تو انھوں نے یہ ٹھانی کہ ہسپتال سے کسی نہ کسی طریقے سے باہر نکلنا چاہیے، جنرل وارڈ میں تھے۔۔۔ جب دیکھا کہ ڈاکٹر کھانا کھانے گئے ہیں۔۔۔ تو وارڈ سے نکل آئے اور سیدھے میرے پاس آئے، اور کہا، ’’مجھ سے فضول باتیں مت پوچھنا!‘‘ میں نے ان سے کوئی فضول بات نہ پوچھی۔
لیکن۔۔۔
ایک دن انھوں نے مجھ سے پوچھا، ’’میں اب کیا کروں۔۔۔‘‘ اب اس کا میرے پاس کیا جواب ہوسکتا تھا۔۔۔ میں نے صرف اتنا کہا، ’’تپش صاحب۔۔۔ آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں میں تو کم عقل ہوں۔۔۔‘‘ تپش صاحب میرا یہ جواب سن کر چند لمحات خاموش رہے۔ اس کے بعد کہا، ’’ٹھیک ہے ہر شخص اپنے معاملات اچھی طرح جانتا ہے۔‘‘
دوسرے دن سے انھوں نے زنانہ لباس پہننا شروع کر دیا۔۔۔ یہ وہی کپڑے تھے جو انھوں نے اس لڑکی کے لیے بنوائے تھے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.