کرسیٔ صدارت پر جو بھی شخص بیٹھا ہو
اس پہ کیا گزرتی ہے کچھ بتا نہیں سکتا
ضبط کر کے بیٹھے گا اختتام ہونے تک
کوئی بھی تقاضا ہو اٹھ کے جا نہیں سکتا
روک کر ہی رکھے گا اپنا ہاتھ اٹھنے سے
جس قدر بھی کھجلی ہو سر کھجا نہیں سکتا
سو گئے دھڑلے سے سامعین سیٹوں پر
نیند کی پری کو یہ پاس لا نہیں سکتا
نذر گوش ہونی ہیں ہر طرح کی تقریریں
کوئی کچھ بھی کہہ جائے تلملا نہیں سکتا
سامنے جو بیٹھے ہوں کچھ حسین سے چہرے
شان بے نیازی سے مسکرا نہیں سکتا
ہو گئی کمر سیدھی کنکریٹ کی مانند
لے کے ایک انگڑائی چین پا نہیں سکتا
جس کا جب بھی جی چاہے اٹھ کے وہ چلا جائے
یہ نصیب کا مارا اٹھ کے جا نہیں سکتا
سوچ کر جو آیا تھا خطبۂ صدارت میں
ہو گئیں وہ سب باتیں یہ بتا نہیں سکتا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.